میں داخل نہیں ہے بلکہ صوم صرف دن کے اندر ہی ہوتا ہے اور سورج کے غروب ہوتے ہی چوں کہ رات آجاتی ہے اس لیے سورج کے غروب ہوتے ہی روزہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔
چناں چہ’’ ارکانِ اربعہ‘‘ کی عبارتِ بالا سے بھی ایک فائدہ تو یہی حاصل ہوا کہ غروبِ شمس کے ساتھ ہی رات آجاتی ہے اور افطار حلال ہو جاتا ہے۔ غروبِ شمس اور مجیٔ لیل میں کوئی فصل نہیں ہوتا، بلکہ غروب شمس کے لیے مجیٔ لیل لازم ہے۔ جیسا کہ علامہ بحر العلوم فرماتے ہیں: فَإِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ جَائَ اللَّیْلُ وَحَلَّ الْإِفْطَارُ۔اس قضیۂ شرط میں إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ مقدم ہے اور جَائَ اللَّیْلُ وَحَلَّ الْإِفْطَارُ تالی ہے، اور ظاہر ہے کہ اس جگہ مقدم مستلزم تالی کو ہے۔ معقولین کے قول: إذا کانت الشمس طالعۃ فالنھار موجود (جس میں إذا کانت الشمس طالعۃ مقدم اور فالنھار موجودٌ تالی ہے) کا مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ سورج کے طلوع ہوتے ہی بلا فصل وجودِ نہار ہوجاتا ہے اور طلوعِ شمس کے لیے وجودِ نہار لازم ہے اور اس قول کا یہ مطلب کسی کے نزدیک بھی صحیح نہیں کہ طلوعِ شمس کے بعد بھی وجودِ نہار میں کسی قسم کا شک و شبہ رہتا ہے۔ جب طلوع شمس مستلزم ہے وجودِ نہار کو اور سورج نکلتے ہی دن شروع ہوجاتا ہے تو غروبِ شمس کے مستلزم لیل ہونے اور سورج کے غروب ہوتے ہی رات کے شروع ہو جانے میں کسی طرح کا شبہ کیوں کر ہو سکتا ہے اور جب سورج غروب ہوگیا اور رات شروع ہوگئی تو اب حلِ افطار میں تردد کیوں ہے؟
حاصل یہ ہے کہ غروبِ شمس کے لیے جب وجو دِلیل اور حلِ افطار لازم ہے تو پھر غروبِ شمس کے تحقّق کے بعد افطار میں کس امر کا انتظار باقی ہے؟ تو اب امام فی العقائد شیخ ابو منصور ماتریدی ؒ نے اگر اپنی تفسیر ’’تأویلات القرآن‘‘ میں زیرِ آیت کریمہ{ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ} تحریر فرمایا ہے کہ ’’اِتمامِ صوم کے لیے غروب آفتاب کا یقینی طور پر ہونا ضروری ہے اور غروب کا یقین تب ہی ہوسکتا ہے جب رات کا ایک جزو دن میں داخل ہو‘‘ تو اس کا مطلب بھی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ سورج کے غروب ہوتے ہی چوں کہ رات کا آنا شروع ہوجاتا ہے اس لیے رات کے ایک جزو کے دن میں داخل ہونے کے لیے غروبِ آفتاب کے بعد کسی دوسری چیز کے انتظار کی ضرورت نہیں ہے۔ سورج کے غروب ہوتے ہی رات کا ایک جزو دن میں خود بخود داخل ہوجاتا ہے اور صوم کا اتمام ہوکر افطار حلال ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ علامہ زرقانی ؒ سے شرح ’’موطأ‘‘ میں تفسیر ’’تاویلات القرآن‘‘ کے ہم معنی قول ’’لکن لا بد من إمساک جزء من اللیل؛ لیتیقن إکمال النھار‘‘کو ’’ منتقیٰ‘‘ سے نقل کرنے کے بعد علامہ باجی کا قول نقل فرمایا ہے :
إن ھذا قول أصحابنا ولا یحتاج إلیہ عندي ؛ لأنہ إذا لم یفطر حتی تغیب الشمس فقد استوفی ذلک ولا یتصور فیہ غیر ھذا۔1
رفعِ اشتباہ: بعض اکابر کے کلام سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسی تاخیر کو افطار کے اندر مکروہ فرماتے ہیں جو حدِ