گاروں کو گناہوں کے کرنے کی چوں کہ عادت پڑی ہوئی ہوتی ہے اس عادت کی وجہ سے اس مبارک زمانہ میں بھی ان سے گناہ ہو جاتے ہیں، یا یہ اثر ہے نفس کی قوتِ داعیہ الی الشر کا کہ نفس گناہوں کی طرف رغبت دلاتا ہے اس لیے گناہ ہو جاتے ہیں، شیاطین کے اثر سے گناہ نہیں ہوتے، تو جو گناہ اس مبارک ماہ میں ہوتے ہیں وہ نفس کے تقاضا اور اس کی قوتِ داعیہ الی الشر کے سبب ہوتے ہیں اور شیاطین کے وسوسہ کی وجہ سے جو گناہ رمضان سے قبل ہوا کرتے تھے ان سے اس زمانہ میں لوگوں کو محفوظ کردیا جاتا ہے۔ اور اس اشکال کا ایک جواب استاذ الکل حضرت مولانا شاہ محمد اسحٰق صاحب دہلوی ؒ نے دیا ہے جس کو صاحبِ ’’مظاہر حق‘‘ نے پسند فرمایا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ فاسقوں کے بہکانے سے صرف سرکش شیطان روک دیے جاتے ہیں اور کم درجہ کے شیطان ان کو بہکاتے رہتے ہیں، جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ بہ نسبت اور دنوں کے ایامِ رمضان میں گناہ کم کرتے ہیں لیکن کچھ گناہ ان سے ہوتے رہتے ہیں۔
اور دوزخ کے دروازے بند کیے جانے میں اشارہ اس طرف ہے کہ روزہ داروں کے نفوس فواحش کی آلودگی سے مُنزَّہ اور معاصی کے اسباب سے خلاصی پاچکتے ہیں اور ان کی خواہشات ختم ہو چکی ہوتی ہیں، اس لیے وہ ایسے کاموں سے باز رہتے ہیں جو دوزخ میں داخلہ کے باعث ہوں، چناں چہ کبائر سے روزہ دار خود پرہیز کرنے کا اہتمام کرتا ہے اور صغائر کو روزہ کی برکت کے سبب بخش دیا جاتا ہے۔ اسی طرح بہشت کے دروازے کھولنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس مبارک ماہ میں نیک کاموں کی توفیق ہوتی ہے جو کہ بہشت میں داخلہ کے اسباب ہیں۔
ماہ مبارک کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادات کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی لمحہ ضایع اوربے کار جانے نہیں دینا چاہیے، شب و روز کے ساعات کو اعمالِ صالحہ کے ساتھ مزین و معمور رکھنے کی سعی اور کوشش میں مصروف رہنا چاہیے۔ دوسرے مہینوں کی دائمی عبادات کے ساتھ بعض دوسری عبادات کو اس ماہ مبارک میں مقرر کرنے سے شریعت کی غرض بھی یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس ماہِ مبارک کا ہر لمحہ اور ہر ساعت عبادت و بندگی میں گزرے، لیکن حاجتِ بشریہ میں گھرے ہوئے انسان کے لیے یہ ناممکن تھا کہ وہ اپنے کاروبار اور بشریت کے تقاضوں سے علیحدہ ہوکر ہمہ وقت عبادت میں مشغول ہوجاتا، اس لیے انسانوں کے ضعف اور ان کی ضروریاتِ طبعیہ پر نظر فرماکر خدا تعالیٰ کی رحمت نے دستگیری فرمائی اور اس ماہ مبارک میں ایسی خاص طرز کی عبادت کو فرض کے طور پر معیّن فرما دیا کہ انسان اس عبادت کے ساتھ اپنی تمام ضروریات و حوائج میں بھی مصروف رہ سکتا ہے اور عین اسی حالت میں وہ عبادت میں بھی مشغول ہوتا ہے۔ ایسی خاص طریقہ کی عبادت روزہ ہے جس کو اس ماہ میں فرض فرمادیا گیا ہے۔