الأکملان علی صفوۃ خلقہ سیدنا محمد المبعوث إلی الإنس والجان، و علٰی آلہ وأصحابہ ما تعاقب الملوان۔
بعد الحمد والصلوٰۃ! گزارش آں کہ عرصہ سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ رمضان المبارک کے اندر روزہ کے افطار کے وقت کے متعلق مسلمانوں میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ہی مسجد میں بعض لوگ افطار کرلیتے ہیں بعض بیٹھے رہتے ہیں اورافطار نہیں کرتے۔ اس میں بعض مرتبہ سخت اختلاف اور بلوے کی نوبت بھی آجاتی ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ افطار کے وقت اَدعیۂ ماثورہ میں مشغول ہوا جاتا اور اپنی حاجات اور مرادوں کو اس وقت دربارِ خداوندی میں پیش کیا جاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ روزہ دار اللہ کا مہمان ہے اور افطار کے وقت اس کی دعا مقبول ہوتی ہے۔ کیوں کہ کریم میزبان مہمان کی استدعا کو ردّ نہیں کیا کرتا۔ مگر ہماری حالت یہ ہے کہ افطار کے وقت ایک تو افطاری کے واسطے آئی ہوئی اشیا کے تقسیم کرنے میں بچوں اور بڑوں کا شور اس قدر ہوتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اور اکثر بچے ننگے پاؤں ہوتے ہیں اس سے مسجد کی صفوں کے خراب و ناپاک ہو جانے کا بھی قوی اندیشہ ہوتا ہے۔ مگر شوقِ افطاری میں کسی کو اس طرف توجہ نہیں ہوتی اور نہ کوئی کسی کی نصیحت کو سنتا ہے۔ اس وقت ایک نفسی نفسی کا سماں ہوتا ہے۔ ہر ایک کو افطاری حاصل کرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ مسجد کے اندر اس وقت شور و شغب اور بچوں کا بے احتیاطی کے ساتھ آنا اس میں مسجد کی کس قدر بے حُرمتی اور بے ادبی ہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔
دوسرے افطاری کے وقت کے متعلق حاضرینِ مسجد میں شدید نزاع اور شور و غل شروع ہوجاتا ہے اور اس طرح بچے اور بڑے سب مل کر اپنے شور و غل اور لڑائی جھگڑے کے سبب مسجد کو بازار کا نمونہ بنادیتے ہیں۔ ایسے وقت میں نہ کسی کو مسنون دعاؤں کے پڑھنے کا خیال رہتا ہے اور نہ اس طرف توجہ ہوتی ہے کہ یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہے۔ اس وقت حضورِ قلب کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دربار میں اپنی مرادوں کو پیش کرنا چاہیے۔ اس دو طرفہ شور و غُل میں جمعیتِ خاطر اور سکونِ قلب کا نام و نشان نہیں رہتا۔ یہی جمعیت اور اطمینانِ قلب ہے جس سے دعا میں عجز و تضرع کی کیفیت پیدا ہو کر امیدِ قبول وابستہ ہوا کرتی ہے۔ اس ہنگامہ اور شور کے اندر قلب کی غفلت کی حالت میں جو دُعائیہ کلمات عادت کے طور پر منہ سے نکلتے بھی ہیں ظاہر ہے کہ ان کے مستجاب اور مقبول ہونے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
حضور ﷺ کا ارشاد ہے: ’’إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَقْبَلُ الدُّعَائَ مِنْ قَلْبٍ لاَہٍ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ غافل دل سے نکلی ہوئی دعا کو قبول نہیں فرماتے۔
ان حالات کو دیکھ کر خیال آیا کہ رمضان المبارک کے متعلق علمائے کرام نے جو مختلف کتب اور رسائل تحریر فرمائے ہیں