تیسری قسم یہ ہے کہ سبب ایک ہواور مسبب کے اندر تکرار ہو، یعنی سبب ایک بارپایا گیا مگر مسبب باربار پایاجاتاہے۔ جیسے حج کے طواف میں رمل (یعنی شانے ہلاتے ہوئے اکڑکر طواف کرنا) اس کاسبب ’’اراء ۃِقوت‘‘ (مشرکین کواپنی قوت دکھلانا) تھا، کیوںکہ مدینہ طیبہ سے جب صحابہ کرامؓ حج کے لیے مکہ معظمہ آئے تومشرکین مکہ نے کہاتھا کہ ان لوگوں کو یثرب کے بخار نے ضعیف اور بوداکردیاہے۔ تو حضور ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ طواف میں رمل کریں۔ اب وہ سبب ’’اراء ۃِ قوت‘‘ تو نہیں رہا لیکن طواف میں رمل باقی رہا۔ یہ عمل مدرک بالعقل نہیں، اور جوعمل خلافِ قیاس ہوتاہے اس کے لیے نقل اور وحی کی ضرورت ہوتی ہے، اس میں بجزوحی کے کوئی راستہ نہیں ہے، ایسے عمل پرقیاس کرکے کسی دوسرے عمل کوجاری نہیں کیا جاسکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ عید میلاد کاسبب کیاہے؟ ظاہرہے کہ صرف حضور ﷺ کی ولادت کی تاریخ ہونا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ تاریخ جوسبب ہے عیدمیلاد کا وہ ایک ہے جوگزر گئی یا وہ تاریخ بار بار آتی ہے؟ یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ تاریخ ہوگئی ہے، کیوں کہ اب جو ۱۲ ؍ربیع الاوّل کی تاریخ آتی ہے وہ اس خاص تاریخِ ولادت کی عین نہیں صرف مثل ہے۔ اس واسطے مثل کا مدارِ حکم ہونا اور مثل کے لیے وہی حکم ثابت ہوناجوعین کے لیے تھا کسی دلیل نقلی کا محتاج ہوگا اور بوجہ غیرمدرک بالعقل ہونے کے اس میں قیاس حجت نہیں ہوگا اور عید میلاد منانے میں کوئی دلیل نقلی پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی۔ اس لیے اس کو شریعت پر زیادتی اور بدعت کہا جائے گا۔
یہاںیہ شبہ نہ کیاجائے کہ حضور ﷺ نے پیر کے دن روزہ رکھنے کی وجہ وُلِدْتُّ فِیْہِ (اس میں میری ولادت ہوئی ہے) سے بیان فرمائی ہے حالاں کہ روزِ ولادت گزر گیا ہے ، اب یہ اس کامثل ہے اس کو اصل کاحکم کیوں ہوا؟ اس لیے کہ روزہ توخود منقول ہے اور یہ اوپر گزر چکا ہے، کہ اس صورت میں وحی کی ضرورت ہوتی ہے، اور آپ ﷺ نے وحی سے یہ روزہ رکھا ہے، اس لیے اس پر قیاس نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح حجۃ الوداع میں باوجود یہ کہ مکہ مکرمہ فتح ہو چکا تھا اور مشرکین کو اراء ۃِ قوت کی ضرورت نہ رہی تھی، پھر بھی حضور ﷺ اور صحابۂ کرام ؓ نے طواف میں رمل باقی رکھا، یہ اس کی دلیل ہے کہ یہ عمل اراء ۃِ قوت کے بغیر بھی مامور بہٖ ہے اور سبب کے فقدان کے باوجود بھی بحالہٖ باقی ہے۔ ورنہ حجۃ الوداع میں ارتفاعِ علت کی وجہ سے حکم مرتفع ہوجاتا۔
غرضے کہ نقل اور عقل ہر طرح سے بحمد اللہ ثابت ہوگیا کہ یہ عید میلاد مخترع، ناجائز اور بدعت واجب الترک ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہم کو ولادتِ نبوی ﷺ پر فرحت اور سرور کا حکم ہے، مگر یومِ ولادت کو عید منانا شرعاً درست نہیں