لگایا کہ اہل بیت کا بغض اس کے بام ترقی پر پہنچنے میں سخت حائل ہے تو اس نے خارجی مذہب چھوڑ کر حب اہل بیت کا دم بھرنا شروع کر دیا۔
۶۴ھ میں جب یزید بن معاویہ مرا تو اہل کوفہ نے یزید کے عامل عمروبن حریث کو کوفہ کی حکومت سے برطرف کر کے حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ سے بیعت کرلی۔ جنہوں نے یزید کے بعد حجاز اور عراق کی عنان فرمان روائی اپنے ہاتھ میں لی تھی۔ مرگ یزید کے چھ مہینہ بعد مختار کوفہ پہنچا اور اہل کوفہ کو قاتلین حسینؓ سے جنگ آزما ہونے کی دعوت دینی شروع کی اور بولا میں (حضرت حسینؓ کے سوتیلے بھائی) محمد بن حنیفہ کی طرف سے وزیر اور امین ہوکر تمہارے پاس آیا ہوں۔ مختار کوفہ کے گلی کوچوں اور مسجدوں میں جاتا اور حضرت حسینؓ اور دوسرے اہل بیت اطہار کا ذکر کر کے ٹسوے بہانے لگتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تحریک جڑ پکڑنے لگی اور رجوع خلائق شروع ہوا۔ یہاں تک کہ ہزاروں آدمی اس کے جھنڈے تلے جان دینے پر آمادہ ہوگئے۔
اب مختار اپنی حکومت قائم کرنے کے منصوبے سوچنے لگا۔ چنانچہ ارادہ کیا کہ کوفہ پر قبضہ کر کے حکومت کی داغ بیل ڈالے۔ چنانچہ اس نے ۱۴؍ربیع الاوّل ۶۶ھ کی رات کو خروج کرنے کا عزم مصمم کر لیا۔ عبداﷲ بن مطیع کو جو حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ کی طرف سے حاکم کوفہ تھا بتایا گیا کہ مختار عنقریب خروج کر کے کوفہ پر قبضہ کیا چاہتا ہے۔ اس لئے اس نے شرفائے شہر کی قیادت میں فوج اور پولیس کے آدمی بھیج کر شہر کی ناکہ بندی کر دی۔ اس انتظام کا یہ مقصد تھا کہ مختار اور اس کے پیرو خوفزدہ ہوکر خروج سے باز رہیں۔ا س سے پہلے مختار نے مضافات کوفہ کے ایک مقام پر بڑی خاموشی کے ساتھ حربی تیاریاں مکمل کرلی تھیں اور وہ رزم وپیکارکے لئے بپھر رہا تھا۔ اس لئے ناکہ بندی کا اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔
مختار شب معہود کو طلوع فجر تک فوج کی ترتیب وآراستگی میں مصروف رہا۔ یہ اطلاع پاکر سرکاری جمعیت بھی مقابلے پر آمادہ ہوئی اور تڑکے ہی دونوں طرف سے حملہ ہوا۔ دن بھر تلوار چلی۔ آخر سرکاری فوج کی ہزیمت ہوئی اور مختار نے قصر امارت کا محاصرہ کرلیا۔ تین دن کے بعد جب ابن مطیع کی قوت مدافعت جواب دے بیٹھی تو اس کے ایک فوجی افسر شیث ابن ربعی نے اس سے کہا کہ اب آپ نہ اپنے تئیں محفوظ رکھ سکتے ہیں اور نہ اوروں کو بچا سکتے ہیں۔ ابن مطیع نے کہا اچھا بتاؤ کیا کیا جائے۔ شیث نے کہا میری رائے میں مناسب ہے کہ آپ اپنے اور ہمارے لئے امان طلب کیجئے۔ ابن مطیع نے جواب دیاکہ مجھے مختار سے امان مانگتے ہوئے نفرت ہوتی ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ حجاز اور بصرہ ہنوز امیرالمؤمنین (عبداﷲ بن زبیرؓ) کے زیرنگیں ہیں۔