مرارہ ایک جداگانہ دستہ فوج لے کر مسلمانوں کے مقابلہ پر آیا۔ مسیلمہ تک پہنچنے میں ایک دن کا راستہ باقی تھا کہ حضرت خالد نے شرحبیل بن حسنہ کو مقدمۃ الجیش کا سردار مقرر کر کے پیش قدمی کا حکم دیا۔ اتفاق سے رات کے وقت مجاّعہ سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ مسلمانوں نے نہایت بے جگری سے مرتدین پر ہلہ بول دیا اور مجاّعہ کے ساتھیوں کو مارتے مارتے ان کھلیان کر دیا۔ مجاّعہ قید کر لیا گیا۔ اس کے رفقاء میں سے اس کے سوا کوئی نہ بچا۔
اب حضرت خالدؓ اور رئیس المرتدین مسیلمہ میں معرکہ آرائی شروع ہوئی۔ اس محاربہ میں مسیلمہ کے ہمراہ چالیس ہزار فوج تھی اور اسلامی لشکر صرف تیرہ ہزار شمار میں آیا تھا۔ حضرت خالدؓ نے پہلے اتمام حجت کے لئے مسیلمہ اور اس کے پیروؤں کو ازسرنو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ مگر انہوں نے اس دعوت کو مسترد کر دیا۔ دوسرے صحابہ کرامؓ نے بھی پند وموعظت بہتیری تدبیریں چلائیں۔ لیکن مسیلمی گم کردگان راہ کے والہانہ یقین واعتقاد کی گرمجوشی میں کچھ فرق نہ آیا۔ اس معرکہ میں امیرالمومنین حضرت فاروق اعظمؓ کے بھائی زید بن خطابؓ حضرت عمرؓ کے عالی قدر صاحبزادہ عبداﷲ بن عمرؓ اور امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صاحبزادہ جناب عبدالرحمن بن ابی بکرؓ بھی شریک تھے۔
یہ لڑائی بڑی خوفناک تھی۔ یہ اسلام اور کفر کی ایسی زبردست آویزش تھی کہ اس سے پہلے مسلمانوں کو ایسے شدید معرکہ سے کبھی سابقہ نہ پڑا تھا۔ کئی دن کی معرکہ آرائی کے بعد نسیم فتح مسلمانوں کے رایت اقبال پر چلی۔ مسیلمہ مارا گیا۔ اکیس ہزار مرتدین قعر ہلاکت میں پڑے اور حسب بیان ابن خلدون ایک ہزار اسی مسلمان شہید ہوئے۔ حضرت خالدؓ نے مرتدین کے سردار مجاّعہ سے سونے، چاندی، اسلحہ اور آدھے یا چوتھائی قیدیوں کی شرط پر مصالحت کر لی۔
اتنے میں ایک قاصد امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ فرمان لے کر یمامہ پہنچا کر اگر خدائے عزیز مرتدین پر فتح یاب دے تو بنو حنیفہ میں سے جس قدر بقیہ السیف عرصہ بلوغ کو پہنچ چکے ہوں وہ سب بجرم ارتداد قتل کئے جائیں اور ان کی عورتیں اور بچے لونڈی غلام بنائے جائیں اور اسلام کے سوا ان سے کوئی چیز قبول نہ کی جائے۔ ’’وان یقتلہم کل قتلۃ وان یسبی النساء والذراری ولا یقبل من احد غیرالاسلام‘‘ (البدایہ والنہایہ وابن کثیر ج۶ ص۳۱۶)
لیکن امیرالمؤمنین کا فرمان پہنچنے سے پہلے حضرت خالدؓ معاہدہ کی تکمیل کر چکے تھے۔ اس لئے اس حکم کا تو پوری طرح نفاذ نہ ہوسکا اور لشکر اسلام کو اس سونے، چاندی، اسلحہ اور نصف یا ربع اسیران جنگ سے زیادہ کچھ نہ مل سکا۔ (تاریخ کامل ابن اثیر ج۲ ص۱۰۴) ورنہ بالغوں کے قتل اور