تائید وتصدیق کے لئے ایک اولوالعزم رسول بھیجا جائے گا۔
بعض مغربیت زدہ لوگوں کا ذہن اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ کس طرح کوئی شخص ہزارہا سال کے بعد دنیا میں واپس آسکتا ہے۔ لیکن جو شخص قرآن پر اور حضرت خیرالمرسلینﷺ کے ارشادات گرامی پر ایمان رکھتا ہے اس کو اس عقیدہ پر یقین رکھنے میں کوئی تردد وخلجان نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ کلام پاک میں عزیر علیہ السلام کے سوسال کے بعد زندہ ہونے کا واقعہ مذکور ہے۔ اسی طرح اصحاب کہف تین سو نو سال تک غار میں بحالت خواب پڑے رہے۔ پس اگر وہ امور خدائے قدیر کے لئے ممکن تھے تو حضرت مسیح علیہ السلام کو ہزارہا سال تک زندہ رکھ کر دوبارہ دنیا میں بھیجنا بھی اس ذات بے ہمتا کے لئے مشکل نہیں۔
ظہور مہدی علیہ السلام
صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نزول مسیح علیہ السلام سے کچھ مدت پیشتر حضرت محمد بن عبداﷲ معروف بہ مہدی علیہ السلام جو سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہرائؓ کی اولاد میں سے ہوں گے مکہ معظمہ میں ظہور فرما ہوں گے اور تھوڑے دنوں میں تمام عرب ان کے زیر نگیں ہو جائے گا۔ وہ سات سال تک برسر حکومت رہیں گے۔ نصاریٰ سے ان کی بڑی لڑائیاں ہوں گی۔ جن میں خدائے موفق ان کو مظفر ومنصور کرے گا۔ ان فتوحات کے بعد مہدی علیہ السلام اپنے لاؤ لشکر سمیت دمشق میں قیام فرماہوں گے تو ایک دن جب نماز عصر پڑھنے کے لئے صفیں درست کر رہے ہوںگے تو اسوقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے سفید شرقی مینار پر دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے اتریں گے۔
نماز کی صفیں دیکھ کر حضرت مسیح علیہ السلام بغرض ادائے نماز اہل ایمان میں آشامل ہوں گے۔ مہدی علیہ السلام ان سے نماز پڑھانے کی درخواست کریں گے۔ مگر وہ فرمائیں گے کہ آپ ہی نماز پڑھائیے کہ خدائے برتر نے امت محمدی کو بڑا شرف بخشا ہے۔ اس پہلی نماز میں تو مہدی علیہ السلام امام ہوں گے۔ لیکن اس کے بعد تمام نمازوں میں حضرت مسیح علیہ السلام ہی بوجہ افضلیت کے امامت فرمایا کریں گے۔
قتل دجال اور مدفن مسیحی
کچھ دنوں کے بعد مسیح علیہ السلام دجال اکبر یعنی ایک کانے یہودی سردار کو جس نے خدائی کا دعویٰ کر رکھا ہوگا اور لوگوں کو عجیب وغریب معجزے دکھا کر گمراہ کر رہا ہوگا، قتل کریں گے۔ چونکہ مسیح علیہ السلام لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گے۔ اس لئے یہودی، نصاریٰ اور تمام دوسرے