تعارف!
پیشتر اس کے کہ کچھ عرض کروں۔ تعارف کراناضروری سمجھتاہوں کہ عزیز ملک عطاء الرحمان صاحب، راحت ملک نہ صرف مخلص نوجوان بلکہ وضع قطع کے لحاظ سے بھی خوش پوش نوجوان ہیں۔ انداز گفتگو میں متانت، سنجیدگی اور شرافت کو بہت دخل ہے۔ مخفی در مخفی حقائق کو سامنے لانے کے لئے ملک صاحب موصوف نے نہایت ہی پرامن طریق اختیار کیا۔ بات میں ہیر پھیر کرنا ان کا شیوہ نہیں۔ بلکہ جیسا کہ ٹریکٹ کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ بات کو واضح سمجھانے کے لئے کچھ صاف گوئی کے خوبصورت اور محتاط الفاظ انہوں نے مجبوراً استعمال فرمائے ہیں تاکہ آئے دن میاں محمود احمد اشتعال انگیزی کرتے ہیں؟ ان کو اپنے ذاتی کردار بھی سمجھ میں آجائے اور مریدوں پر کم از کم اصل حقیقت واضح ہو جائے۔ ان کی یہ جسارت نہ صرف قابل داد ہے بلکہ آنے والی نسلیں اس بے خوف مجاہد کی روش کو بطور دلیل پیش کریں گی۔ بہرحال ان کا مطلب بقول غالب یہ ہے ؎
ہر چند کہ ہوا مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں بادہ و ساغر کہے بغیر
اپنی بیالیس سالہ آمریت میں میاں محمود احمد پرستش کے خوگر ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے ان کی زندگی میں گوناگوں بے اعتدالیاںآگئیں اور جماعت جانتے ہوئے بھی خاموش رہی۔ اب جماعت کے مفاد کااور تحریک احمدیت کے فروغ کا تقاضا ہے۔ ان سے اب پرستش بھی کی جائے۔ آخر وہ کب تک جیتے جی ؎
حروف زیر لب شرمندہ گوش سماعت رہیں گے
اور کب تک جماعت کا ذہنی ہوش مند طبقہ محض اپنی حیاء اور وضعداری کی وجہ سے لب بستہ رہ کر ان کو یعنی خلیفہ اور ان کے خاندان کو من مانی کرنے کی اجازت دے گا۔
عزیز راحت ملک نے نقاب کشائی کرکے ایک رندانہ اقدام کیا ہے۔ خلیفہ کے تہذیب سوز حالات کو وہ کہاں تک مہذب الفاظ میں بیان کرتے۔ چنانچہ انہوں نے جس اخلاق