یعنی اہل ربوہ نے یہ ثابت کر دیا کہ عقیدہ میں تبدیلی ڈنڈے کی ضرب کا نتیجہ نہیں۔ چیمہ نے اسے ڈنڈے کی ضرب قرار دے کر بہت بڑا گناہ کیا ہے۔ لیکن چیمہ کی اس بات کا اقرار کر لیا جو ان کا اعتراض تھا اور جسے ڈنڈے کی ضرب کا نتیجہ سمجھتے تھے۔ بقول الفضل شاطر سیاست نے اگر اپنا عقیدہ تحقیقاتی عدالت میں تبدیل نہیں کیا تھا۔ ۱۹۳۵ء میں تبدیل کیا تھا تو سوال یہ ہے کہ عقیدہ تو تبدیل کیاگیا۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ عقیدہ ڈنڈے کی ضرب سے تبدیل ہوا یا نہیں۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنا عقیدہ تبدیل کر لیا اور یہی اعتراض محمد حسین چیمہ کاتھا جس کا اقرار اہل ربوہ نے خود کر لیا۔
شاطر سیاست کے سرکاری گزٹ نے یہ کہہ کر کہ عقیدہ ۱۹۳۵ء میں تبدیل کر لیا تھا۔ یہ تو ثابت کردیا کہ وہ عقیدہ ڈنڈے کی ضرب سے تبدیل نہیں ہوا۔ لیکن چند دیگر عقائد جو تحقیقاتی عدالت میں تبدیل کئے گئے کیا وہ بھی ۱۹۳۵ء میں تبدیل کر لئے گئے تھے؟ اگر جواب نفی میں ہو تو پھر اگر ان عقائد کی تبدیلی کی وجہ ڈنڈے کی ضرب قرار دی جائے تو شاطر سیاست کے پاس کیا جواب ہے؟ مثلاً تحقیقاتی عدالت سے قبل شاطر سیاست فرمایا کرتے تھے: ’’ہم اس امت میں صرف ایک نبی کے قائل ہیں… پس ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ امت محمدیہ میں کوئی اور شخص نبی نہیں گزرا۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۱۳۸)
لیکن تحقیقاتی عدالت میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ: ’’ہزاروں نبی ہو چکے ہوں گے۔‘‘ سوال اور جواب ملاحظہ ہو:
عدالت کا سوال… آنحضرتﷺ کے بعد اور کتنے سچے نبی گذرے ہیں؟
جواب… اس اعتبار سے کہ ہمارے رسول کریمﷺ کی حدیث کے مطابق آپ کی امت کے علماء تک میں آپ کی عظمت اور شان کا انعکاس ہوتا ہے۔ سینکڑوں اور ہزاروں ہو چکے ہوں گے۔
کیا مندرجہ بالا دونوں بیانات میں واضح تضاد نہیں ہے۔ اگر ہے تو پھر کیا یہ عدالت کے ڈنڈے کی ضرب کا نتیجہ تو نہیں؟
علاوہ ازیں نماز جنازہ کے عقیدہ میں بھی انہوں نے عدالت میں تبدیلی کر لی۔ چنانچہ عدالت میں پیش ہونے سے قبل نماز جنازہ سے متعلق ان کا عقیدہ حسب ذیل تھا: ’’ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیراحمدی تو حضرت مسیح موعود کے منکر ہوئے۔ لیکن ان کے بچوں کا جنازہ کیوں نہ