سیاست کی وہ مٹی پلید کرتے کہ رہتی دنیا تک شاطر سیاست کے کارہائے نمایاں وردزبان رہتے۔ لیکن انہوں نے اپنے عہد خلافت میں شاطر سیاست اور ان کے سارے خاندان کو اپنی اولاد سے زیادہ عزیز رکھا اور شاطر سیاست کی ہر مقام پر مدد کی۔ لیکن سازش مآب نے جہاں ان کی زندگی ہی میں جانشینی کی سعی وجہد شروع کر دی۔ وہاں مسند خلافت پر بیٹھتے ہی جو کام کیا وہ یہ تھا کہ اپنے محسن پیر اور استاد کی اولاد کو جماعتی طور پر ختم کرنے کی کوشش شروع کر دیں۔ تاکہ ان میں سے کوئی شاطر سیاست کی زندگی کے بعد خلیفہ نہ بن جائے۔ چنانچہ اپنے نااہل بیٹے مرزاناصر احمد کو ہر اہم شعبے کا انچارج بنایا اور کوشش کی کہ جماعت میں اس کا اثر ورسوخ بڑھے اور خلافت آئندہ انہی کے خاندان میں رہے۔ لیکن افسوس کہ ان کو اپنی اس کوشش میں ناکامی ہوئی۔ انہوں نے اپنے بیٹے کوجس شعبہ کا بھی انچارج بنایا وہ اپنی نااہلیت کی وجہ سے ماسوا چند خوشامدیوں کے کسی کو بھی متأثر نہ کر سکا۔ چنانچہ جب اپنے ۴۲ سالہ عہد خلافت کے بعد بھی انہیں یہ محسوس ہوا کہ ان کا بیٹا نااہل ہے اور جماعت کو وہ اپنی اہلیت کا قائل نہیں کر سکا۔ انہوں نے دوسری غلطی یہ کی کہ عبدالمنان عمر کو جو حکیم نور الدین (خلیفہ اوّل) کے بیٹے ہیں۔ یہ الزام لگا کر کہ وہ خلافت کے امیدوار ہیں۔ جماعت سے خارج کر دیا تاکہ ان کے اپنے بیٹے مرزاناصر احمد کے لئے راہ ہموار ہو جائے اور اپنی اس مذموم حرکت کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے محسن اور استاد پر برسنا شروع کر دیا اور ان کی شان میں بڑے نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’ہم حضرت خلیفہ اوّل کا بڑا ادب کرتے ہیں۔ مگر یہ لوگ بتائیں کہ وہ کون سے ملک ہیں۔ جن میں حضرت مولوی نورالدین نے اسلام کی تبلیغ کی۔ یورپ، امریکہ، افریقہ اور ایشیاء میں وہ کوئی ایک ملک ہی دکھادیں جس میں انہوں نے اسلام پھیلایا ہو۔‘‘ (خطبہ جمعہ الفضل مورخہ ۲۳؍ستمبر ۱۹۵۶ئ)
اس اقتباس میں وہ اپنا اور اپنے استاد اور محسن کا موازنہ کر کے اپنی بڑائی ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے تو امریکہ، یورپ، افریقہ اور ایشیاء میں تبلیغ کی ہے۔ لیکن کوئی بتائے کہ مولوی نورالدین نے کیا کیا۔ پھر فرماتے ہیں: ’’ایک نورالدین کیا ایسے ہزاروں نورالدین سلسلہ پر قربان کئے جاسکتے ہیں۔‘‘
سبحان اﷲ! اپنے پیر استاد اور محسن کی شان میں کتنا پیارا فقرہ چست کیا ہے اور اپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنانے اور خلافت کو گدی بنانے کی خواہش میں وہ اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ انہیں یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ ان کے منہ سے جو الفاظ نکل رہے ہیں وہ ان کے کسی بیٹے کے متعلق نہیں۔ بلکہ اپنے ایک بزرگ، پیر، محسن اور استاد سے متعلق ہیں اور اپنے پیر، محسن یا استاد کا مقام