حالانکہ احادیث میں بھی بعض واقعات ایسے موجود ہیں جن میں تنقید کو قومی زندگی کے لئے اسی طرح اشد ضروری قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح جسم خاکی کے لئے متحرک دل کا ہونا لازمی ہے۔ مثلاً سفیان بن عیینہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ فرمایا کرتے تھے: ’’مجھے سب سے زیادہ وہ شخص محبوب ہے جو میرے عیوب مجھ پر ظاہر کرتا ہے۔‘‘ حضرت عمر فاروقؓ کا یہ قول جمہوریت کے حق میں ایک زندۂ جاوید ثبوت ہے جسے کوئی شخص بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ امام جماعت ربوہ کا ذاتی گزٹ پھر ایک دوسری جگہ پر رقمطراز ہے: ’’گو ڈکٹیٹر شپ خلافت سے مشابہت رکھتی ہے۔ لیکن دراصل خلافت کی شان ڈکٹیٹر شپ سے بہت بڑھ کر ہے جو موازنہ ذیل سے ظاہر ہے۔ متبعین خلافت خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ گویا وہ خلیفہ وقت کے پاس سبھی کچھ بیچ کر اس سے نجات اخروی کا سودا کرتے ہیں۔ اس بیعت کے بعد کوئی چیز بھی ان کی نہیں رہتی۔‘‘
(الفضل مورخہ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۷ئ)
مندرجہ بالا عبارت میں بتایا گیا ہے کہ ڈکٹیٹر شپ یعنی آمریت خلافت سے مشابہت رکھتی ہے۔ الفاظ دیگر خلافت آمریت کا دوسرا نام ہے اور یہیں تک نہیں بلکہ خلافت کی شان آمریت سے بھی زیادہ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خلافت آمریت کا دوسرا نام ہے تو اسلام نے جمہوریت کو قوم کی روح کیوں قرار دیا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ خلافت کا مقام آمریت سے بھی زیادہ ہے، سے کیا مراد ہے؟
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ خلافت آمریت کا دوسرا نام ہے تو پھر خلافت کا مقام آمریت سے بھی زیادہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ خلیفہ کے اختیارات آمر مطلق سے زیادہ تسلیم کئے جائیں۔ یعنی الفضل نے ان سطور میں قارئین کے ذہن نشین یہ بات کروانا چاہی ہے کہ خلیفہ آمر مطلق ہوتا ہے۔ بلکہ اس کے اختیارات آمر سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے اس استدلال کی تصدیق اس کی حسب ذیل سطور سے ہو جاتی ہے: ’’متبعین خلافت خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ گویا وہ خلیفہ وقت کے پاس سبھی کچھ بیچ کر اس سے نجات اخروی کا سودا کرتے ہیں۔ اس بیعت کے بعد کوئی چیز بھی ان کی نہیں رہتی۔‘‘
یعنی آمرکی حیثیت اور خلیفہ کی حیثیت میں یہ امتیاز ہے کہ آمر صرف اپنی قوم کے جسم سے کھیلنے کے اختیارات کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن خلیفہ انسانی جسم کے علاوہ روح سے بھی اپنی من مانی منوانے کے اختیارات رکھتا ہے اور خلیفہ اور مرید میں یہ ایک ایسا سودا ہوتا ہے کہ مرید کے حقوق کسی چیز پر بھی نہیں رہتے۔ ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘‘ لیکن اس کے ساتھ ہی الفضل اس بات کا