پہلے اپنے آپ پر بھروسہ کرتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارے اذہان وقلوب نے جو طریق کار وضع کیا ہے وہی درست ہے۔ وہ غلطی پر ہیں۔ بلکہ کسی کام کی ابتداء سے پہلے بھی خدا ہی پر بھروسہ رکھنے اور اسی کے نام سے کام اور اپنے مشاغل کی ابتداء کرنے کی تعلیم دی اور فرمایا کہ اے مومنو! کسی کام کی ابتداء سے قبل اﷲتعالیٰ کا نام لو۔ کیونکہ اس کے سوا کوئی دوسری چیز تمہاری رہنمائی نہیں کر سکتی اور پھر یاد رکھو صرف کسی شخص کی دنیاوی جاہ وحشمت کو دیکھ کر شخصیت پرستی کا زہرنہ کھا لینا۔ بلکہ ایسا شخص احمق ہے جو کسی انسان کی عظمت کی طرف دھیان کرتا اور اس سے اپنی توقعات وابستہ کرتا ہے۔ کیونکہ ’’الرحمن الرحیم‘‘ تو اﷲتعالیٰ ہے۔ سو اس کے سوا کسی خاکی جسم کے ساتھ توقعات وابستہ کر لینا اور اس پر بھروسہ رکھنا گمراہ کن ہے۔ جس سے ہر لمحہ بچنے کی سعی وجہد کرتے رہا کرو۔ تاکہ وہ خدا جو بن مانگے عطاء کرنے والا ہے تمہیں اپنی نعمتوں سے مالا مال کر دے اور تم اس کی رحمیت کے نور سے فیض یاب ہو سکو۔
پس ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ میں بھی اﷲتعالیٰ نے ’’نظریہ آمریت سے بچاؤ‘‘ کی تلقین کی ہے اور اس میں یہ پہلو موجود ہے کہ کسی شخص کو بھی چاہے وہ کوئی ہی کیوں نہ ہوں اختیار دینا ناجائز اور اﷲتعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ لیکن ادارہ الفضل رقمطراز ہے: ’’احباب بحیثیت جماعت طریق انتخاب کو استعمال کرنے کی بجائے اسی امر میں سعادت دارین یقین کرتے ہیں کہ تمام اختیارات کو خلافت کی خاطر قربان کر دیں۔ کیونکہ ترقیات ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کوسب اختیارات قیادت وسعادت دینے ہی میں مضمر ہیں۔‘‘
(الفضل مورخہ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۷ئ)
اﷲتعالیٰ قرآن کریم میں مشاورت کی ہدایت کرتا ہے اور جمہوری اقدار کو مسلمانوں کی بقاء کے لئے لازمی قراردیتا ہے۔ لیکن الفضل جو خلیفہ ربوہ کا ذاتی گزٹ ہے۔ وظیفہ خواری کے زعم میں خدا اور اس کے رسول کے پیغامات وتعلیمات کے بالکل برعکس لوگوں کو خلیفہ کی خاطر اپنے تمام اختیارات سے دست بردار ہو جانے کی تلقین کرتا ہے اور ایک شخص پر اعتماد کر کے اپنے جملہ حقوق اور اختیارات قربان کرنے کو کامیابی قرار دیتا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید نے اﷲتعالیٰ کے سوا کسی انسان کے لئے اپنے اختیارات چھوڑنا اور اس کے سوا کسی شخص پر اعتماد کرنا ناجائز قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہور سے تمام اختیارات چھین لینے سے مطلب یہ بنتا ہے کہ اگر خلیفہ یا امام یا مذہبی رہنما یا امیر قوم کو لے کر غلط راہ پر گامزن ہو پڑے تو قوم اس کا محاسبہ کرنے کی مجاز نہیں رہتی اور تنقید کا ہتھیار جسے اسلام نے قومی اصلاح کے لئے ضروری قرار دیا ہے، سلب ہوکر رہ جاتا ہے۔