ایک ہیجان خیز خطبہ دیا اور فرمایا: ’’یاد رکھو تبلیغ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جب تک ہماری Base مضبوط نہ ہو پہلے Base مضبوط ہو تو تبلیغ مضبوط ہوسکتی ہے… بلوچستان کو احمدی بنایا جائے تا کہ ہم کم از کم ایک صوبہ کو تو اپنا کہہ سکیں… میں جانتا ہوں کہ اب یہ صوبہ ہمارے ہاتھوں میں سے نکل نہیں سکتا۔ یہ ہمارا ہی شکار ہوگا۔ دنیا کی ساری قومیں مل کر بھی ہم سے یہ علاقہ چھین نہیں سکتیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۳؍اگست ۱۹۴۹ئ)
یہ واقعہ اخبارات میں آچکا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ خلیفہ کا یہ عسکری پلان بہت پرانا ہے۔ تقسیم ملک سے پہلے آپ کی نظر ضلع گورداسپور پر تھی۔ یہ داستان خلیفہ کی زبان سے سنئے: ’’گورداسپور کے متعلق میں نے غور کیا ہے اگر ہم پورے زور سے کام کریں تو ایک سال میں فتح کر سکتے ہیں… اس وقت ڈائنامیٹ رکھا جاچکا ہے اور قریب ہے کہ مخالفت کا قلعہ اڑادیا جائے۔ اب صرف دیاسلائی دکھانے کی دیر ہے۔ جب دیا سلائی دکھائی گئی۔ قلعہ کی دیوار پھٹ جائے گی اور ہم داخل ہو جائیں گے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۲؍مارچ ۱۹۳۱ئ)
پھر فرماتے ہیں: ’’مردم شماری کے دنوں میں گورنمنٹ بھی جبراً لوگوں کو اس کام پر لگاسکتی ہے۔ اگر کوئی انکار کرے تو سزا کا مستوجب ہوتا ہے۔ پس میں بھی ناظروں کو حکم دیتا ہوں کہ جسے چاہیں مدد کے لئے پکڑ لیں۔ مگر کسی کو انکار کا حق نہ ہوگا اور اگر کوئی انکار کرے تو میرے پاس اس کی رپورٹ کریں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۲؍جون ۱۹۲۲ئ)
انہی مقاصد کے پیش نظر قادیان اور ماحول قادیان کا نقشہ بھی تیار کروایا گیا: ’’ایک تو جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اور نہیں تو اس ضلع (گورداسپور) کو تو اپنا ہم خیال بنالیں۔ احمدیوں کے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں وہ ہی ہوں اور دوسروں کا کچھ اثر نہ ہو… احمدیوں کے پاس ایک چھوٹے سے چھوٹا ٹکرہ بھی نہیں ہے۔ جہاں احمدی ہی احمدی ہوں۔ کم ازکم ایک علاقہ کو مرکز بنالو اور جب تک اپنا مرکز نہ ہو، جس میں کوئی غیرنہ ہو۔ اس وقت تک تم مطلب کے مطابق امور جاری نہیں کر سکتے۔ ایسا علاقہ اس وقت تک ہمیں نصیب نہیں ہوا۔ جو خواہ چھوٹے سے چھوٹا ہو مگر اس میں غیرنہ ہوں۔ جب تک یہ نہ ہو اس وقت تک ہمارا کام بہت مشکل ہے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۱۲؍جون ۱۹۲۲ئ)
یہ ہے وہ کام جو خلیفہ کے ذہن پر مسلط ہے۔ کیا خالص دینی مہمات کی سرانجام دہی کے لئے ان کو ایسے علاقے مطلوب ہیں۔ خواہ بڑے پیمانے پر خواہ چھوٹے پیمانے پر کچھ علاقے ہوں جو بلاشرکت غیر کلیتہً ان کی ملکیت ہوں۔ کیا حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اپنے لئے ایسے صدر