عدلیہ
انتظامیہ کے علاوہ خلیفہ کے ہاں ایک مربوط عدلیہ بھی ہے۔ خلیفہ خود آخری عدالت ہیں اور وہ خود ہی ناظم قضا یا رجسٹرار مقرر کرتے ہیں اور اس کا عزل اور ترقی بھی خود ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔
ربوہ سپریم کورٹ کے جج یا اپیل بورڈ کے ممبران کی نامزدگی بھی خلیفہ خود کرتے ہیں اور وہ جس مرحلہ پر چاہیں مقدمہ کی مسل اپنے ملاحظہ کے لئے طلب کر لیتے ہیں اور جس جج کو چاہیں مقدمہ سننے کا ناہل قرار دے دیتے ہیں۔ ایسے مقدمات میں جو وکیل پیش ہوتے ہیں، انہیں ناظم ہذا سے باقاعدہ اجازت نامہ دیاجاتا ہے۔ اس کے بغیر خلیفہ کی عدالتوں میں کسی وکیل کو حکومت کے اجازت نامہ کے باوجود پیش ہونے کا حق نہیں دیا۔ خلیفہ کا یہی ناظم قضا یا رجسٹرار مقدمہ مختلف قاضیوں کے سپرد کرتا ہے اور فیصلوں کی نقول مہیا کرنے پرجو آمدنی ہوتی ہے اس کو داخل خزانہ کرنے کا بھی ذمہ دار ہے۔ سلسلہ احمدیہ کے فرائض دربارہ قضا اور فیصلہ تنازعات کی ادائیگی کے لئے یہی محکمہ قضا ہے۔ اس میں ناظم قضا کا یہ کام بھی ہوتا ہے کہ احمدیوں کے تنازعات کے فیصلوں کے لئے مناسب انتظام کرے۔ اس کو حسب ضرورت خلیفہ کے ایماء سے قاضی اور قاضی القضاء مقرر کرنے کا اختیار ہے۔ آخری اپیل خلیفہ کے پاس ہوتی ہے۔ (الفضل مورخہ ۶؍جنوری ۱۹۲۱ئ)
قاضی سلسلہ سمن جاری کرنے کا مجاز ہے۔ نوٹس بھی دیتا ہے ڈگریوں کا اجراء بھی کرایا جاتا ہے۔ یک طرفہ اور ضابطہ کی کارروائیاں بھی یہاں ہوتی ہیں۔ مثال ملاحظہ ہو:
نوٹس: بنام شیخ منظور احمد۔
مدعی: مستری بدرالدین معمار ساکن قادیان۔
بنام: شیخ منظور احمد ولد شیخ محمد حسین مرحوم۔
دعویٰ: اجراء ڈگری مبلغ پینسٹھ روپے دو آنے۔
مقدمہ مندرجہ عنوان میں مؤکل قضا نے ۴؍اگست ۱۹۳۳ء کو یک طرفہ ڈگری پینسٹھ روپے دو آنے کی دی تھی۔ مدعی نے امور عامہ میں اجراء ڈگری کی درخواست ۱۴؍اگست ۱۹۳۳ء کو دی۔ لہٰذا آپ کو بذریعہ اخبار نوٹس دیا جاتا ہے کہ مندرجہ بالا ۲۴؍دسمبر ۱۹۳۳ء تک دفتر امور عامہ میں جمع کرادیں تو بہتر ورنہ آپ کے خلاف ضابطہ کی کارروائی عمل میں لائی جاوے گی۔
(الفضل مورخہ ۱۹؍دسمبر ۱۹۳۳ئ)