چونکہ مرزا محمود احمد طبعاً اور مزاجاً سیاسی تھے۔ اپنی کبریائی کا سکہ جما کر خواب اور رؤیا کے ذریعے جماعت کو سیاست کے میدان میں لے آئے۔ اس اعتزال کے جواز میں انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ان کے دور خلافت میں احمدیوں کو حکومت مل جائے گی۔ یہ تدبیر جس کا خمیر تزویر سے اٹھایا گیا تھا بڑی سریع الاثر ثابت ہوئی۔ جماعت کا کثیر حصہ بیک بینی ودوگوش ان کی شطحیات پر بھی رقص کرنے لگ گیا۔ مبادا ماضی کی یاد دلوں میں تازہ ہوکر جماعت کو پھر دین سے وابستہ کر دے۔ اس کے تدارک کے لئے مرزامحمود احمد نے بانی سلسلہ کے نورتنوں کو خائن، غدار، نالائق، کذاب اور کمینے کہہ کر ان کے خلاف اور ان کے کارناموں کے خلاف جذبہ نفرت پیدا کر دیا۔ جماعت پہلے پہل غیرشعوری طور پر اور بعد میں شعوری طور پر سمجھنے لگ گئی کہ جو لوگ تحریک کے ۱۸۸۹ء سے لے کر ۱۹۰۸ء تک پاسبان بنے رہے۔ وہ کمینے اور کذاب تھے۔ لیکن کسی نے اس نفرت کا تجزیہ نہ کیا کہ اس کی لپیٹ میں خود بانی سلسلہ کی ذات بھی آجاتی ہے۔ کیونکہ جن افراد کے خلاف نفرت اور حقارت کی افزائش کی جارہی تھی وہ تحریک کے ستون تھے۔ اگر وہ لوگ مرزامحمود کے خیال میں واقعی جھوٹے اور غدار تھے اور ان کی جماعت بھی ان کو اسی نگاہ سے دیکھتی ہے تو ان کو اپنی تحریک کے عمائد سمجھنے والا خود مرزامحمود احمد کے الزام ودشنام کی زد میں آجاتا ہے۔ گویا وہ خود حسن وقبح میں تمیز نہیں کر سکتا تھا۔ قادیانی جماعت نے جذبے سے مغلوب ہوکر اس پہلو پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ کیونکہ غور کا مادہ ہی سلب ہوچکا تھا۔
مرزامحمود احمد نے بڑی عیاری سے مولوی نورالدین جو ان کے خسر استاد اور مرشد تھے، پر بھی ہاتھ صاف کیا۔ وہ خلافت پر قابض ہوکر رخش عناں تاب بن گئے تھے۔ اگر حضرت فاروق اعظمؓ ان کے دعاوی کی زد سے نہ بچ سکے۔ ان کے پیشرو خلیفہ کیسے بچ سکتے تھے۔ انہوں نے جماعت میں ایک خبر چلادی کہ جب انہوں نے انجمن کا نظام سنبھالا تو انجمن کے خزانے میں چند آنے تھے۔ اس کامطلب صاف تھا کہ مولانا نورالدین یا نااہل تھے یا خائن۔ نا اہل اور خائن منہ سے نہ کہا مگر بات وہ منوالی جس کا منطقی نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ تھا۔
مرزامحمود احمد نے بلطائف الحیل جماعت کے دینی مذاق اور میلان کومجروح کرنا شروع کر دیا۔ وہ جماعت جو کبھی بانی سلسلہ اور مولوی نورالدین کی تاب کاریوں سے تابناک ہونے کی مدعی تھی۔ وہ اپنے منہ بولے خلیفہ کی خواب کاریوں سے خواب ناک ہوکر رہ گئی۔ خلیفہ کے مقرر کردہ حاطب اللیل راویوں نے ان کے فریب کو خوب فروغ دیا۔ تقویٰ وطہارت کی بجائے سیاسی تزک واحتشام کے نقشے جمنے لگے۔ یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے ماتحت ہورہا تھا۔ کیونکہ