چاہتا ہے۔ زمانہ مستقبل پر اس کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا ہے جس کے بالکل صاف معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کو تمام انبیائے سابقین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم جو کہ آنحضرت محمد رسول اﷲﷺ سے قبل گزر چکے ہیں ان سب پر ایمان لانے کی تلقین کی گئی ہے۔
لہٰذا ان سب پر ایمان لانا ضروری ہوا اور آنحضرت محمد رسول اﷲﷺ کے بعد کسی نبی یا رسول پر ایمان لانے کا نہ تو حکم ہے اور نہ ہی اس آیت مبارکہ میں ذکر ہے۔ پس واضح طور پر ثابت ہوگیا کہ آنحضرت محمد رسول اﷲﷺ جیسا کہ قرآن حکیم میں ذکر ہے خاتم النّبیین ہیں یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں اور آپ کے بعدانقطاع وحی برمنہاج نبوت لازمی امر ہوگیا ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ نبوت کا معاملہ بہت ہی نازک ہے اور اس سے براہ راست ایمان پر زد پڑتی ہے کیونکہ اگر مدعی نبوت کا دعویٰ سچا ہے تو اس کا نہ ماننے والا کافر ہے۔ اورا گر اس کا دعویٰ جھوٹا ہے تو اس کا ماننے والا کافر اور اﷲ تعالیٰ کسی کا ایمان ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ ’’وما کان اﷲ لیضیع ایمانکم (البقرا:۱۴۳)‘‘ لہٰذا اگر آنحضرت محمد رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہونا ہوتا توا س کا ذکر اسی آیت مبارکہ میں کیا جانا ضروری تھا تاکہ خوامخواہ لوگوں کا ایمان ضائع نہ ہو۔ اخیر میں ایک بار پھر مرزائیوں سے استدعا ہے کہ اب بھی اپنے موجودہ غلط عقیدے سے تائب ہوکر پھر سے حقیقی اور سچے اسلام میںد اخل ہوجائیں تاکہ عاقبت بخیر ہو۔ ورنہ خسران ہی خسران ہے۔ بلکہ خسران عظیم۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ!
ناچیز…خلیل الرحمن قادری، ۲۱؍نومبر ۱۹۸۸ئ!