میں ہوئی ہے۔ وہ دوسری صورت میں پچاس سال میں بھی غیر ممکن تھی۔ پس مبارک وہ خدا ہے جس نے دنیا میں طاعون کو بھیجا تاکہ اس کے ذریعے سے ہم بڑھیں اور پھولیں اور ہمارے دشمن نیست ونابود ہوں۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۳حاشیہ، خزائن ج۲۲ص۵۷۰)
ان تمام باتوں کے باوجود مرزا قادیانی نے طاعون کو ابتلاء بتلا کر اور اس کے دور ہونے کی خواہش کا اظہار کرکے خود اپنے تمام بلند وبانگ دعاوی کو یکدم باطل ثابت کردیا ہے۔ بلکہ تمام قلعہ ہی خود مسمار کردیا ہے۔ مزید برآں مرزا قادیانی اپنے (مکتوب۳ مکتوبات احمدیہ ج۵ص۳۹، مورخہ ۱۲؍مئی ۱۹۰۵ئ، مکتوبات احمدیہ ج۲ص۴۲۴جدید) میں لکھتے ہیں کہ: ’’قادیان میں اب طاعون نہیں ہے‘‘ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ مندرجہ بالا مزعومہ الہامات کی رو سے قادیان کے تمام باشندوں کو اگر زیادہ وسعت دی جائے تو پنجاب کے تمام باشندوں نے مرزا قادیانی کو باخلاص اور سچے دل سے خدا کا مامور اور رسول مان لیا ہے۔ جب ہی طاعون کی وباء قادیانیوں سے دور ہوگئی ہے۔ یہ بات واقعات کے بالکل خلاف ہے جیسا کہ مرزا قادیانی کے مندرجہ ذیل بیان سے بالکل واضح طور پر ثابت ہے اور اس میں کسی ابہام یا تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی ہے۔ ’’ہم نے طاعون کے بارے میں جو رسالہ دافع البلاء لکھا تھا، اس سے یہ غرض تھی کہ لوگ متنبہ ہوں اور اپنے سینوں کو پاک کریں اور اپنی زبانوں اور آنکھوں اور کانوں اور ہاتھوں کو ناگفتی نادیدنی ناشیدنی اور ناکردنی سے روکیں اور خدا سے خوف کریں تاخدا تعالیٰ ان پر رحم کرے۔ اور وہ خوفناک وباء جو ان کے ملک میں داخل ہوگئی ہے۔ دور فرمائے مگر افسوس کہ شوخیاں اور بھی زیادہ ہوگئیں اور زبانیں اور بھی دراز ہوگئیں۔‘‘ (نزول المسیح ص۱، خزائن ج۱۸ص۳۷۹)
مندرجہ بالا تمام مضمون سے یہ بات بالکل واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ مرزا قادیانی مامور من اﷲ نہیں تھے اور ان کے تمام مزعومہ الہامات اور یقین دہانیاں خود ان کی طرف سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تھیں۔ جو کہ حالات کے ساتھ ساتھ پلٹے کھاتی رہتی تھی جس کی وجہ سے وہ کئی موقعوں پر تضاد بیانی سے کام لیتے تھے۔ نیز یہ بھی یقین سے مان لینا چاہئے کہ طاعون کی وباء مشیت ایزدی کے مطابق پھیلی اور ختم ہوگئی جیسا کہ مرزا قادیانی سے قبل بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور بعد میں بھی ہوتا رہا ہے اور جب تک دنیا قائم ہے ہوتا رہے گا۔ بلکہ ایسا یقین کرنا ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کو ظاہر کرتا ہے۔ ’’فاعتبروا یا اولی الابصار وما علینا الاالبلاغ۔ والسلام علی من اتبع الہدیٰ‘‘
ناچیز: خلیل الرحمن قادری، ۷۹؍۹حسنین سٹریٹ، ٹنچ بھاڑ، راولپنڈی ۲۱؍نومبر ۱۹۸۸ئ!