M
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
ساٹھ روپے کا وظیفہ خوار
روحانی مصلحین اور پاک باز اور بے لوث قائدین قوم کی صداقت کا ایک عظیم الشان ثبوت یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ اپنی لیڈری اور قیادت سے دنیوی لحاظ سے قطعاً کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اس عہدہ کے بعد اور اس کی وجہ سے وہ کوئی جائیداد نہیں بناتے۔ وہ ’’لا اسئلکم علیہ من اجرٍ‘‘ کی عملی تفسیر ہوتے ہیں۔ پاک محمد مصطفیﷺ کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ نہ صرف یہ کہ آپ نے تمام عمر قوم کے روپیہ سے ایک حبہ کی جائیداد بھی نہ بنائی بلکہ اپنی ورثہ کی جائیداد اور حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ کا لاکھوں کا کاروبار دین کی راہ میں صرف کر دیا اور عمر بھر نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ وفات کے وقت اتنا بھی پاس نہ رکھا کہ آخر عمر میں بقدر ایام مرض بآرام زندگی بسر کرتے۔ بوقت وفات دریافت فرمایا کہ کیا گھر میں کچھ ہے۔ جناب عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ ایک دینار ہے۔ حضور نے فرمایا کہ اسے تقسیم کر دو۔ (بحوالہ الحکم مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۸۹۸ئ)
’’نہ آپ مال جمع کرتے نہ کھانے میں تکلف نہ پہننے میں، نہ آپ کوئی مکان بناتے ہیں، نہ کوئی جائیداد مہیا کرتے ہیں۔ نہ اپنے نفس کا اعزاز چاہتے ہیں یہ بھی نہیں چاہتے کہ لوگ آپ کی آمد پر کھڑے ہوں۔ خاکساری ایسی کہ گدھے پر بغیر کاٹھی سواری کر لیتے ہیں۔ اپنی جوتی خود گانٹھ لیتے۔ مجلس میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ اپنے خاندان سے کسی کو اپنے بعد سلطنت کے لئے منتخب نہ فرمایا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۳؍اگست ۱۹۳۳ئ)
ان ایام جدال وقتال میں زرہ نہایت ضروری سامان حرب تھا۔ لیکن وہ بھی جو کے چند سیردانوں کے عرض رہن تھی۔ باقی رہی اولاد اسے بھی زکوٰۃ اور صدقہ لینے سے منع کر دیا۔ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ‘‘ کہ محمد رسول اﷲﷺ ہمارے لئے نمونہ اور اسوۂ حسنہ ہیں۔آئندہ دنیا کی نجات کسی عبدالقادر، کسی داؤد، کسی ہارون الرشید، کسی خلیفہ سلیمان، کسی زید وبکر کی راہ کے اختیار کرنے میں نہیں۔ بلکہ متابعت کے لائق اگر کوئی ہے اور رہبری اور نمونہ کا کام کوئی دے سکتا ہے تو وہ محمد رسول اﷲﷺ کی پاک اور مطہر ذات ہے۔ پھر فرمایا: ’’ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ (آل عمران:۳۲)‘‘ آج اﷲتعالیٰ کا محبوب بننے کا ذریعہ محمد رسول اﷲ کی متابعت اور پیروی ہے اور کسی