تعارف
رسالہ ہذا میں ایک ایسے شخص کی مالی دراز دستیوں کا مجمل احوال بیان کیاگیا ہے جس کے روحانی خطابات کی فہرست طویل ہے اور منجملہ ان خطابات کے وہ فضل عمر ہونے کا مدعی ہے۔ مریدوں کا ایمان ہے کہ اس کی آمد سے گویا (نعوذباﷲ) خود خداتعالیٰ آسمان سے نازل ہوا ہے۔ یہ پراسرار شخصیت تقدس مآب خلیفہ ربوہ ہے جس کی ذاتی کردار اور شہرت کی وجہ سے ایک خالص روحانی تحریک یعنی تحریک احمدیت اپنے ملک میں اس قدر بدنام ومشتبہ ہوگئی کہ اس سے ملک کا فہمیدہ طبقہ حیران وبدظن ہوگیا۔ جس کے چلن کی آلودگی کے بارے میں اس کے اپنے مریدوں کی حلفیہ مؤکد بعذاب شہادتیں متواتر پریس میں آرہی ہیں۔ جس نے پروپیگنڈا تکنیک سے ایک پوری قوم کی ذہنی صلاحیتوں کو مفلوج وناکارہ کر کے رکھ دیا اور صرف ایک صلاحیت باقی رہنے دی کہ گردش لیل ونہار صرف اور صرف خلافت مآب کی خاطر برپا کی گئی ہے۔ جس نے کروڑوں روپیہ غریب قوم سے وصول کیا اور اس کا بیشتر حصہ ذاتی عیش وآرام پر خرچ کر دیا جس کو رات دن اسلام کے جھنڈے گاڑنے کی فکر رہتی ہے اور جس نے ایسے درباری مولوی تیار کئے کہ جنہوں نے ہیگل اور فرائیڈ کے فلسفہ کے پرخچے فضا میں اڑا دئیے اور یورپ پر ایسی یلغار کی کہ عرصہ قریباً پچاس سال میں ایک بھی معروف ومشہور شخصیت حلقہ بگوش اسلام نہ ہوسکی۔ رات دن یہ درباری مولوی خلافت مآب کے فلک بوس مقام کی رفعت معلوم کرنے میں سرگردان ہیں مگر بیکار۔ تاحال انہیں ان کے ارفع واعلیٰ مقام کی انتہاء نظر نہ آئی۔ خلافت مآب کا یہ گرانڈیل بت جسے کہ خود ساختہ قواعد وضوابط کے ذریعہ موروثی بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور جو کہ ایک قوم کی پچاس سالہ کدوکاوش کا سرمایہ ہے۔ آج مفلوج ہوچکا ہے۔ اس خود تراشیدہ گرتے ہوئے بت کو اب کون سنبھالا دے ایک طرف انسانی تدبیر ہے۔ دوسری طرف خدائے جبار وقہار کی تقریر۔ شاید کہ مکافات کا وقت آن پہنچا۔ فی الحال ہم قارئین کو اس کی مالی دراز دستیوں کی ایک جھلک دکھاتے ہیں اور اس کی مذہبی حیثیت کو سمجھنے کے لئے انہیں رسالہ ’’بلائے دمشق‘‘ اور ’’خلافت اسلامیہ‘‘ کے پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ فقط!