دیا جاسکتا ہے اور کبھی کسی نبی کا انکار بھی فروعی اختلاف ہوا ہے۔ دراصل پہلے تمام اختلافات بنیادی تھے۔ مگر عدالت میں جاکر فروعی ہوگئے۔ ایں چہ بوالعجبی است!
سوال… کیا احمدیوں اور غیراحمدیوں کے درمیان اختلافات بنیادی ہیں؟
جواب… اگر بنیادی کا وہی مفہوم ہے جو ہمارے رسول کریمﷺ نے اس لفظ کا لیا ہے۔ تب یہ اختلافات بنیادی نہیں ہیں۔
سوال… اگر لفظ بنیادی عام معنوں میں لیا جائے تو پھر؟
جواب… عام معنوں میں اس کا مطلب اہم ہے۔ لیکن اس مفہوم کے لحاظ سے بھی اختلافات بنیادی نہیں بلکہ فروعی ہیں۔
۹… ۱۹۵۳ء سے قبل خلیفہ کا عقیدہ تھا:
۱… ’’کسی کا دل گردہ ہے جو یہ کہے کہ مسیح موعود کا ماننا جزو ایمان نہیں۔‘‘
(الفضل مورخہ ۲۰؍مئی ۱۹۱۴ئ)
۲… ’’جب آپ نبی ثابت ہوئے تو آپ کا ماننا جزو ایمان ہوا… الہاماً فرمایا جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۶؍مئی ۱۹۱۴ئ، مجموعہ اشتہارات ج۳ص۲۷۵)
مگر عدالت میں فرماتے ہیں:
سوال… کیا ایسا شخص جو ایسے نبی کو نہیں مانتا جو رسول کریمﷺ کے بعد آیا ہو۔ اگلے جہاں میں سزا کا مستوجب ہوگا۔
جواب… ہم ایسے شخص کو گنہگار تو سمجھتے ہیں۔ مگر یہ کہ اﷲتعالیٰ اس کو سزا دے گا یا نہیں۔ اس کا فیصلہ کرنا خدا کا کام ہے۔
سوال… تو کیا مرزاغلام احمد قادیانی پر ایمان لانا جزو ایمان ہے؟
جواب… جی نہیں۔ (عدالتی بیان)
خلیفہ ربوہ کے دونوں مذہب اوپر بیان کر دئیے گئے ہیں۔ اب قارئین کرام ازخود اندازہ لگالیں کہ عدالت سے پہلے خلیفہ کا کیا مذہب تھا اور عدالت میں جاکر کیا ہوگیا؟ اتنے واضح بیانات پر ہمارے کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔