ہے وہ یقینا حضرت مسیح موعود کو نہیں سمجھتا اور نہ جانتا ہے کہ احمدیت کیا چیز ہے۔ کیا کوئی غیراحمدیوں میں ایسا بے دین ہے جو کسی ہندو یا عیسائی کو اپنی لڑکی دے دے۔ ان لوگوں کو تم کافر کہتے ہو۔ مگر اس معاملہ میں وہ تم سے اچھے رہے کہ کافر ہوکر کسی کافر کو لڑکی نہیں دیتے۔ مگر تم احمدی کہلا کر کافر کو دیتے ہو۔‘‘ (ملائکۃ اﷲ ص۴۶)
مگر عدالت میں فرماتے ہیں: ’’کسی احمدی مرد کی غیراحمدی لڑکی سے شادی کی کوئی ممانعت نہیں۔ البتہ احمدی لڑکی کے غیراحمدی مرد سے نکاح کو ضرور روکا جاتا ہے۔ لیکن باوجود اس کے اگر کسی احمدی لڑکی اور غیراحمدی مرد کا نکاح ہو جائے تو اسے کالعدم قرار نہیں دیا جاتا اور اولاد کو جائز سمجھا جاتا ہے… حقیقتاً نکاح کا مسئلہ ایک سوشل قسم کا مسئلہ ہے۔ ایسے مسائل میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکی کو کہاں آرام رہے گا… لیکن باوجود مخالفت کے اگر کوئی احمدی اپنی لڑکی کا نکاح غیراحمدی مرد سے کر دے تو اس کے نکاح کو کالعدم قرار نہیں دیا جاتا۔‘‘
(عدالت کے سات سوالوں کا جواب)
۷… آنحضرتﷺ کے متعلق اسمہ احمد کی پیش گوئی کے متعلق عدالت سے پہلے خلیفہ صاحب فرماتے ہیں: ’’پس اس آیت میں ضمنی طور پر رسول کریمﷺ کی بھی خبر دی گئی ہے اور… اس کے اصل مصداق حضرت مسیح موعود ہیں۔‘‘ پس اس آیت میں جس رسول احمد نام والے کی خبر دی گئی ہے وہ آنحضرتﷺ نہیں ہوسکتے ہیں۔ (انوار خلافت ص۳۷، ۲۳)
اس کے برعکس عدالت میں فرماتے ہیں: ’’ہمارے نزدیک اس کا اطلاق اصلی طور پر تو آنحضرتﷺ پر ہوتا ہے۔ لیکن ظلی طور پر مرزاغلام احمد قادیانی پر بھی ہوتا ہے۔‘‘
(عدالت کا بیان ص۱۶)
۸… عامتہ المسلمین سے اپنی جماعت کے اختلافات کا ذکر ۱۹۱۷ء میں یوں فرماتے ہیں: ’’ورنہ حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور، ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور۔ اس طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے۔‘‘
(اخبار الفضل مورخہ ۲۱؍اگست ۱۹۱۷ء ص۷)
مگر عدالت میں فرماتے ہیں کہ مسلمانوں سے ہمارے اختلافات فروعی ہیں۔
حالانکہ فروعی اختلافات کی بناء پر کسی کلمہ گو کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج کیسے قرار