۱۸؍مارچ ناقل) لکھا جانے پر یوں شبہ ظاہر کیا ہے کہ دونوں خطوں میں تاریخیں اس طریق سے لکھی گئی ہیں جن سے کتمان حق کی راہ نکالی جائے۔ چنانچہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ایک خط ۱۹۶۴ء میں لکھا تھا جس کی یاددہانی کروائی گئی۔ لیکن مجھے جواب نہیں ملا۔ جواباً عرض ہے کہ یہ مجھ پر بدظنی کی انتہاء ہے۔ ورنہ میرے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہ تھا کہ آپ کو اس طرح کا خلاف تقویٰ الزام دوں۔‘‘ قاضی صاحب نے اپنے اس خط کے آخر پر مجھے یہ بھی لکھا ہے کہ: ’’آپ بھی ’’اجتنبوا کثیراً من الظن‘‘ کو سامنے رکھیں۔ انسان سے سہو وخطا ممکن ہے۔ ربنا لا تواخذنا ان نسینا اوأ خطانا‘‘
تحریف
فصل اوّل میں میں نے قاضی صاحب کو بتایا تھا کہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق یہ امر سنت اﷲ میں داخل ہے کہ ہر رسول کے خلاف اس کے زمانہ کے لوگ جو اکابر میں شمار ہوتے ہیں، بد تدبیریں کرتے ہیں۔ جس کی سزا انہیں اس طرح ملتی ہے کہ ان کا مکر الٹ کر انہی پر پڑتا ہے۔ چنانچہ قاضی صاحب کے اپنے بیان ہی سے اس صداقت کا زندہ ثبوت مہیا کیاگیا تھا اور وہ اس طرح کہ انہوں نے اپنے ۲۴؍فروری گذشتہ والے خط میں میرے بیانات میں تضاد ثابت کرنے کی کوشش کر کے خود اپنے ہی بیانات میں تضاد پیدا کر لیا تھا۔ پس اگر قاضی صاحب کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی خشیت ہوتی تو وہ اس عظیم الشان نشان کو دیکھ کر توبہ کرتے اور اﷲتعالیٰ کی رسالت کو قبول کر کے بخشش کے امیدوار ہوتے۔ قاضی صاحب حضرت مہدی علیہ السلام پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور مہدی علیہ السلام نے لوگوں کو بتایا تھا کہ:
اک نشاں کافی ہے گر ہو دل میں خوف کردگار
تو جب کہ قاضی صاحب نے اقرار کیا ہے کہ انہیں میری کتابیں پہنچتی رہی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان کی نظر سے وہ پیش گوئیاں بھی گزری ہیں جو وحی الٰہی کے ماتحت کی جاتی رہیں اور پھر انہیں پورا ہوتے بھی انہوں نے دیکھا ہے۔ علاوہ ازیں ان میں ایسے رسائل بھی تھے جو ہدایت پانے والوں نے شائع کر کے رسالت حقہ کی شہادت دی ہے اور یہ ایسے امور ہیں کہ ایک متقی کے لئے ان میں ہدایت اور نور ہے۔ لیکن اگر اس قدر نشانات کے باوجود بھی قاضی صاحب کی بصیرت کی آنکھ نہ کھل سکی تھی تو جو بیّن نشان ان کی ذات میں ظاہر ہوا ہے اس سے ان کے دل میں خوف پیدا ہونا چاہئے تھا۔ لیکن بجائے اس کے کہ قاضی صاحب اس سے فائدہ اٹھاتے ۔ انہوں نے ایک اور خطرناک قدم اٹھایا ہے جس کا سبب اور اس کے نتائج کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح ہوا ہے کہ: