’’ان ہؤلاء متبر ماہم فیہ وباطل ماکانوا یعلمون (الاعراف)‘‘
یارو خودی سے باز بھی آو گے یا نہیں
خو اپنی پاک صاف بناؤ گے یا نہیں
باطل سے میل دل کی ہٹاؤ گے یا نہیں
حق کی طرف رجوع بھی لاؤ گے یا نہیں
کب تک رہو گے ضد و تعصب میں ڈوبتے
آخر قدم بصدق اٹھاؤ گے یا نہیں
کیونکر کرو گے رد جو محقق ہے ایک بات
کچھ ہوش کر کے عذر سناؤ گے یا نہیں
سچ سچ کہو اگر نہ بنا تم سے کچھ جواب
پھر بھی یہ منہ جہاں کو دکھاؤ گے یا نہیں
’’اعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم۰ بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۰ یا لا شریک لہ‘‘
وادیٔ طلسمات یعنی ساحران ربوہ کی داستان
(فصل دوم)
فصل اوّل میں واضح ہو چکا ہے کہ قرآن حکیم نے مرسلین کی بعثت کی غرض تبشیر وانذار بتائی ہے اور ان کی پہچان نشانات آسمانی سے کرنے کی ہدایت کی ہے۔ برعکس اس کے کفار کی سنت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ باطل کی راہوں سے جھگڑ کر حق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور نشانات اور انذار کو ہنسی میں ہی ٹال دیتے ہیں۔ چنانچہ قاضی محمد نذیر لائل پوری صاحب آف ربوہ کو اس حقیقت سے آگاہ کر کے لکھا گیا تھا۔ ’’مزید تفصیل ان احکام کی انشاء اﷲ اگلے حصہ میں بیان کی جائے گی۔‘‘
ایک ضروری وضاحت
اصل موضوع کو شروع کرنے سے پہلے ایک اور اہم امر کی وضاحت کی ضرورت پیش آگئی ہے جس کا سبب قاضی محمد نذیر صاحب کا تیسرا خط ہوا ہے جو انہوں نے مجھے ۵؍اپریل کو روانہ کیا اور ۸ماہ کو یہاں پہنچا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس میں حسب ذیل بیان لکھا ہے: ’’واضح ہو کہ آپ کے جواب تمہید بصورت فصل اوّل بعنوان ’’وادیٔ ظلمات‘‘ مجھے موصول ہوئی۔ (افسوس ہے کہ قاضی صاحب نے ربوہ کے ایک ذمہ دار عالم ہونے کے باوجود میرے رسالہ بعنوان ’’وادیٔ طلسمات‘‘ کا نام غلط لکھا ہے۔ یعنی ’’وادیٔ ظلمات‘‘ اور اس طرح انہوں نے اپنی انتہائی بے پرواہی کا ثبوت دیا ہے۔ لہٰذا اس اصلاح کی ضرورت پیش آئی ہے) جس میں آپ نے میرے خط پر ۲۴؍فروری ۱۹۶۵ء کی بجائے ۲۴؍فروری ۱۹۶۴ء لکھا جانے اور اس کے بعد یاد دہانی والے خط پر بقول آپ کے ۱۸؍مارچ ۱۹۶۵ء (درحقیقت خط پر تاریخ اس طرح درج ہوئی ہے۔