مرزابشیراحمد چاہتے تھے کہ انبیاء کی طرف سل دق منسوب کر کے خلیفہ کی بیماریوں کا دفاع کیا جائے۔ مگر کیا وجہ ہے کہ وہ خلیفہ کی اصل بیماری ’’فالج‘‘ اور اس کے جنسی محرکات کا ذکرکرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ جس میں ان کے بھائی نام نہاد مصلح ربانی خلیفہ ثانی بطور عذاب مبتلا ہیں۔ اگر مرزابشیراحمد کو بھی اس بارہ میں نسیان ہوگیا ہے تو وہ الفضل کے فائل کھول کر دیکھیں جن میں جابجا فالج کا چرچا ہے اور پھر ایک اور مضمون لکھا ہے کہ انبیاء (نعوذ باﷲ) مدقوق اور مسلول ہی نہیں مفلوج بھی ہوجایا کرتے ہیں۔ سل اور دق کے مریض کو تو حکماء عامتہ الناس سے علیحدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب مامورین کو ہمہ وقت بندگان خدا سے رابطہ رکھنا پڑتا ہے اور فریضہ تبلیغ میں شب وروز مشغول رہتے ہیں تو پھر یہ امر خدا تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے منافی نہیں ہے کہ وہ ایسے متعدی مرض میں مبتلا شخص کو ہدایت کے لئے مامور فرمائے جو خود مدقوق ومسلول ہو اور دوسروں کے لئے باعث خطرہ۔
دراصل مرزابشیراحمد خداتعالیٰ کی طرف وہ بات منسوب کرنا چاہتے ہیں جو شان خداوندی کے خلاف ہے اور رسول کی ذات پر وہ بیماری چسپاں کرنا چاہتے ہیں جو شان رسالت کے منافی ہے۔ اس کفر کاری اور جہنمی جسارت کا خدا نے یہ انتقام لیا کہ مرزابشیراحمد خود اور اس کا بڑا بھائی خلیفہ اور سب سے چھوٹا بھائی مرزاشریف احمد گوناگوں عوارض اور امراض میں مدتوں مبتلا ہوکر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے۔ چھوٹے بھائی کا تو یہ حال تھا کہ وہ لوگوں سے مانگ مانگ کر پیتھے ڈین کا چسکا پورا کرتا تھا۔ مؤلف کو لاہوریوں کے امیر نے بالمشافہ بتلایا کہ یہ شخص اور نڈھال ہورہا تھا۔ انجمن کے خزانے سے اس کو رقم خطیر دی۔ یہ اس بیٹے کاحال تھا جس کے متعلق اس الہام کو اچھالا جاتا ہے۔ بادشاہ آتا ہے وہ متعدد اشخاص کا مقروض تھا اور جن لوگوں نے کسی حیلے بہانے کے چکر میں آن کر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی جمع شدہ فنڈ کی رقوم اس کو بطور قرضہ حسنہ دی تھیں۔ وہ قرضہ سیہ ہوکر ان کی موت کا پیغام بن گئیں۔
حضرت رسول اکرمﷺ کے متعلق مزعومہ اور ملعونہ فہرست امراض بنانے والوں کے درون خانہ کا اگر طبی محاسبہ ہو تو محاسبہ کرنے والے طبیب ورطہ حیرت میں غرق ہوکر رہ جائیں۔
ض … ٭ … ض