چٹان مورخہ ۴؍ستمبر ۱۹۵۹ء کے اداریہ کا نوٹ درج ذیل کیا جاتا ہے: ’’مرزابشیرالدین محمود بڑے زمانے سے بیمار ہیں۔ عمر کے ساتھ مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا ہے۔ انہی بیماریوں میں نسیان اور اس کے ہم قافیہ عوارض بھی شریک ہیں۔ چونکہ آپ نے اپنے معتقدوں میں خاص قسم کی تقدیس کا درجہ حاصل کر رکھا ہے۔ اس لئے اپنی بیماریوں کی صفائی میں عجیب وغریب تاویلات وتعبیرات گھڑ رہے ہیں۔ ہمارے نوٹس میں ایک دوست ۱۳؍جولائی ۱۹۵۹ء کا الفضل کا شمارہ لائے ہیں۔ اس شمارہ کے پورے چار صفحوں میں آنحضرتﷺ کے امراض کی حدیثیں زیربحث لاکر نہایت ہوشیاری سے مرزامحمود کی ان بیماریوں کا دفاع کیاگیا ہے۔ جن کے احساس سے آپ کے پیروؤں کی ایک جماعت اعتقاداً متزلزل ہے۔ ہم محکمہ تعلقات عامہ کے افسروں سے صرف یہ التماس کریں گے کہ جس باریک بینی سے ان کی احتسابی نگاہیں دنیوی خداوندوں کے معترضین کی زبان وقلم کا جائزہ لیتی ہیں۔ اگر اسی نسبت سے ایک چھچھلتی ہوئی نگاہ اس مقالہ پر ڈال چکے ہوتے تو ہم ان ملفوف الفاظ میں عرض کرنے کی جسارت نہ کرتے۔‘‘
الفضل کو اپنے امام کی مدح وستائش کا پورا حق حاصل ہے۔ لیکن ان بیماریوں کو بالواسطہ رسول اﷲﷺ کی بیماری سے ملا کر ان کے تقدس کا ناد پھونکنا نہ صرف بے ادبی ہے۔ بلکہ اس سے ہم ایسے لوگوں کے جذبات کو صدمہ پہنچتا ہے جن عاجزوں کی معراج یہ ہے کہ اپنے آپ کو رسول اﷲ کے کتوں سے مماثلت دیتے ہوئے بھی خوف محسوس کرتے ہیں کہ شاید ہم اس قابل بھی نہیں ہیں۔
نسبتے خود بہ سگت کردم و بس متعلم
زآنکہ نسبت بہ سگ کوئے تو شد بے ادبی
(چٹان مورخہ ۱۴؍ستمبر ۱۹۵۹ئ)
مرزابشیراحمد نے تمام بحث نسیان پر کی ہے اور یہ تأثر پیدا کیا ہے کہ خلیفہ کو محض ذرا سا نسیان ہوگیا ہے جو نعوذ باﷲ! رسالت مآب کو بھی ہوگیا تھا۔ حالانکہ جو حدیث مرزابشیراحمد نے پیش کی ہے وہ پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے کہ جب حضور علیہ السلام کو یہود کی اس ناپاک سازش کاعلم ہوا تو حضورﷺ نے خود جاکر اس جگہ کو پامال کروایا اور لوگوں کی یہ غلط فہمی دور کر دی کہ سحر کے نتیجہ میں حضورﷺ کو کوئی نسیان کی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ صد افسوس کہ مرزابشیراحمد نے چودہ سو سال بعد وہی تاثر پیدا کرنا چاہا ہے جو اس زمان کے شرپسند یہودیوں نے پیدا کرنا چاہا تھا۔ ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم‘‘