جزویتی پادری آیا ہے جو بیلجئم کا باشندہ ہے اور اس کا نام ’’پادری کورتوا‘‘ ہے اور غالباً وہ اسلام دشمنی میں اپنے ساتھی اور ہم وطن پادری لامنس سے کم نہیں اور وہ کتابیں جو یہ مبلغ پادری ہندوستان سے مصر میں داخل کرنے کے لئے اپنے ہمراہ لایا ہے وہ لاہوری مرزائیوں کے امیر محمد علی کی مصنفات کا مجموعہ ہیں۔ چونکہ اس قسم کی کتابوں کا داخلہ مصر میں بدیں وجہ ممنوع ہے کہ ان کتابوں میں قرآن کے معانی کی تحریف اور عقائد اسلام کی غلط تعبیر ہے۔ اس لئے محکمہ چونگی نے ان قادیانیوں کی کتابوں کے داخلہ کی اجازت میں تؤقف کیا اور حکم دیا کہ ملک کے قانون کے مطابق جب تک محکمہ شرعیات ان کو اچھی طرح سے دیکھ نہ لے اور اپنی رائے کا اظہار نہ کر دے اس وقت تک ان کے داخلہ کی اجازت نہیں مل سکتی۔ مگر ہمارا جزویتی دوست ان کتابوں کو مصر میں داخل کرانے کے لئے بے تاب ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ قانون اپنا راستہ اختیار کرے۔ بلکہ وہ مصر کے باشندوں میں سے ایک دوسرے جزویتی پادری سے مدد حاصل کر رہا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے ساتھ ادارۂ ازہر میں ان کتابوں کے داخل کرانے کی اجازت اور سعی اور امید میں گیا اور یہی امید لے کر دونوں شیخ ازہر کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ وہ ان کی امداد فرمائیں۔ مگر شیخ محترم نے ان کو اطلاع دی کہ اس معاملہ کا فیصلہ قانون کی منشاء کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ (محکمہ شرعیات کا احتساب لازمی ہے) لوگ عیسائیوں کی اس خدمت کو جووہ قادیانیوں کی کتابوں کے لئے کر رہے ہیں۔ تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ہم مرزائیوں اور عیسائیوں کی اس مشارکت کو جو وہ دین اسلام سے ٹھٹھا مخول کرنے میں کر رہے ہیں تعجب کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں۔‘‘
(الفتح قاہرہ مورخہ ۱۰؍شعبان المعظم ۱۳۵۴ھ)
خادم العلمائ: محمد عبدالقدیر صمدانی، بہاول پور!
ض … ٭ … ض