ان ایام میں مراکش کی سرزمین سلطان زیدان کے زیرنگیں تھی۔ جب زیدان کے عامل حاج میر نے اس کی روزافزوں چیرہ دستیاں مشاہدہ کیں تو چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ اس کی سرکوبی کو نکلا۔ ابن ابی محلّی اس کے مقابلہ میں اپنے مریدوں کو لے کر نکلا۔ لڑائی ہوئی۔ جس میں حاج میرکو ہزیمت ہوئی۔ لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ ابن ابی محلّی کے پیروؤں پر ہتھیار اثر نہیں کرتے۔ غرض دلوں پر اس کا رعب چھا گیا۔ اس فتح کے بعد اس نے بلا مزاحمت سلجماسہ پر قبضہ کر لیا۔ وہاں ہر طرح سے عدل وانصاف کاشیوہ اختیار کیا اور مظلوموں کی خوب دادرسی کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رعایا اس کو بہت چاہنے لگی۔
یہ حالت دیکھ کر اہل تلمسان اور راشدیہ کے وفد اس کو مبارک باد دینے آئے۔ ان وفود میں فقیہ علامہ ابوعثمان سعید جزائری معروف بہ قدورہ شارح بھی تھے۔ جب سلطان زیدان کو حاج میر کی ہزیمت کا علم ہوا تو اس نے اپنے بھائی عبداﷲ بن منصور معروف بہ زبدہ کو فوج دے کر اس کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ ورعہ کے مقام پر دونوں لشکروں کی مڈبھیڑ ہوئی۔ عبداﷲ کو شکست ہوئی اور اس کی فوج کے تین ہزار آدمی مارے گئے۔ اس فتح کے بعد ابن ابی محلّی کی شوکت ثریا سے باتیں کرنے لگی۔ جب سلطان زیدان کے سپہ سالار یونس کو اس ہزیمت کی اطلاع ہوئی تو وہ سلطان سے کٹ کر ایک بڑی جمعیت کے ساتھ ابن ابی محلّی کے پاس چلا آیا اور اس کو سلطان کے اسرار وخفایا پر مطلع کر کے اس پر چڑھائی کرنے کی ترغیب دی اور اس کو یقین دلایا کہ سلطان کامغلوب کر لینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔
مراکش پر قبضہ
یونس کی اس تحریک پر ابن ابی محلّی لاؤ لشکر لے کر مراکش پر چڑھ گیا۔ سلطان زیدان ایک لشکر جرارے کر مقابلے پر آیا۔ پرتگالی نصاریٰ نے سلطان زیدان کی کمک پر بلا طلب ایک دستہ فوج روانہ کیا۔ لیکن سلطان کو اس بات پر غیرت آئی کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کفار سے مدد لے۔ تاہم سلطان نے اس احسان کے عوض میں پرتگالی قید یوں کو رہا کر دیا اور تمام قیدیوں کو پرتگالی دستہ فوج کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ اب لڑائی شروع ہوئی۔ ابن ابی محلّی نے سلطان کو شکست دی اور اس نے شہر مراکش پر عمل ودخل کر لیا۔ زیدان جان بچا کر ایک مقام برالعدوہ کی طرف بھاگ گیا۔
ایک عالم دین کا سلطان کو ملک واپس دلانا
کچھ مدت کے بعد سلطان زیدان ملک کے مشہور عالم فقیہ ابوزکریا یحییٰ بن عبداﷲ