کے لئے روانہ کیا۔ لیکن شاہی لشکر خود ہی سرکوب ہوکر بھاگ آیا۔ اس فتح سے بایزید کے حوصلے اور بڑھے اور اس کی نظر میں شاہی افواج کی کوئی حقیقت نہ رہی۔
کچھ مدت کے بعد اکبر نے بایزید کے خلاف ایک فوج گراں روانہ کی اور صوبہ دار کابل کو بھی کابل کی طرف سے یورش کرنے کا حکم دیا۔ محسن خاں صوبہ دار کابل بایزید پر چڑھ آیا اور ادھر سے شاہی فوج نے اس پر یورش کی بایزید دو طرفہ فوجوں کے مقابلہ سے عہدہ برآنہ ہوسکا اور شکست فاش ہوئی اور اس نے ہشت نگر کی طرف بھاگ کر جان بچائی۔ اب بایزید ازسر نو فراہمی لشکر میں مشغول ہوا۔ لیکن اس اثناء میں موت کا فرشتہ پیام اجل لے کر آپہنچا۔ افغانستان کے سلسلۂ کوہ میں بھتہ پور کی پہاڑی پر اس کی قبر ہے۔
معلوم نہیں کہ بایزید نے کس سال دعوائے نبوت کیا اور کس سال مرا۔ تاہم اس کی مدت نبوت واغواء بڑی طویل تھی۔ بایزید کے متصوفانہ اقوال جن کی بناء پر سادہ لوح ظاہر بین اس کو عارف باﷲ اور خدا کا پیغمبر یقین کرتے تھے۔ اس کی کتاب ’’حال نامہ‘‘ میں درج ہیں۔ اس کتاب کے کچھ اقتباس کتاب ائمہ تلبیس صفحات ۳۵۹تا۳۶۱ میں ملاحظہ ہوں۔
بایزید کے بعد اس کا بیٹا شیخ عمر باپ کا جانشین ہوا۔ پیر روشن کے تمام پیرو اس کے پاس جمع ہوگئے۔ یوسف زئی قبیلہ کے پیشوا اخوند درویزہ تھے۔ اخوند درویزہ یوسف زئیوں کو ساتھ لے کر جھوٹے نبی کی امت پر چڑھ دوڑے۔ اس لڑائی میں شیخ عمر اور بایزید کا ایک اور بیٹا خیرالدین مارے گئے۔ اس کا ایک بیٹا جلال الدین قید ہوا اور سب سے چھوٹا بیٹا نورالدین ہشت نگر بھاگ گیا۔
جلال الدین قید سے رہا ہوکر فتح پور سیکری گیا اور اکبر بادشاہ سے ملاقات کی۔ اکبر اسے جلالہ کہا کرتاتھا۔ فتح پور سیکری سے واپس آکر جلالہ نے کابل کا راستہ قطعاً مسدود کر دیا اور رہزنی شروع کر دی۔ اکبر نے ۹۹۴ھ میں اپنے مشہور سپہ سالار راجہ مان سنگھ کو جو اس کی ایک ہندو بیوی کا بھتیجا تھا چند دوسرے فوجی افسروں کی رفاقت میں اس کے مقابلہ کو بھیجا۔ جلالہ کئی سال تک شاہی فوجوں سے برسر مقابلہ رہا۔ ان محاربات کی تفصیل ’’اکبر نامہ اور منتخب التواریخ‘‘ میں درج ہے۔ آخری معرکہ میں بایزیدکا پانچواں بیٹا کمال الدین اسیر ہوا۔ اکبر نے تادم واپسیں اسے قید رکھا۔ جلالہ کے بعد بایزید کا پوتا احداد بن عمر خلیفہ بنایا گیا۔ ہزارہا افغان اس کے حلقہ ارادت میں داخل تھے۔ جہانگیر بادشاہ نے احداد کے خلاف ۱۰۳۵ھ میں ایک لشکر جرار روانہ کیا۔ اسی لڑائی میں احداد مارا گیا۔ اس کے دام افتادہ کہا کرتے تھے کہ قرآن کی سورت ’’قل ہو اﷲ احد‘‘ احداد ہی کی شان میں نازل ہوئی تھی۔