وجمیل نورانی ہستی کو دیکھتا ہوگا۔ لیکن جس نورانی ہستی کو وہ ازجحالت وکوری خدائے برترگمان کرتا تھا اور اس سے بالمشافہ گفتگو ہوتی تھی وہ شیطان تھا۔ کوئی بشر خواہ وہ خدائے برگزیدہ انبیاء ورسل ہی کیوں نہ تھے خدائے واحد کو دار دنیامیں برایٔ العین نہیں دیکھ سکتا۔ البتہ جنت میں اہل ایمان کو جو آنکھیں عطاء ہوں گی ان میں یہ صلاحیت ہوگی کہ خدائے بے کیف کو دیکھیں۔
بایزید نے اپنا لقب ’’روشن‘‘ پیر رکھا تھا اور اپنے دام افتادوں سے کہا تھا کہ مجھے غیب سے ندا ہوتی ہے کہ تمہیں سب لوگ روشن پیر کہا کریں۔ چنانچہ اس کے پیرو اسے ہمیشہ اسی لقب سے یاد کرتے تھے۔ گو عامتہ العالمین میں وہ تاریک پیر کے نام سے شہرت رکھتا تھا۔ بایزید صاحب تصانیف تھا۔ عربی، فارسی، ہندی اور پشتو چار زبانوں میں کئی ایک کتابیں لکھیں۔ اس کی ایک کتاب ’’خیر البیان‘‘ ہے جسے چاروں مذکور زبانوں میں تالیف کیا تھا۔ کہتا تھا کہ خیرالبیان کلام الٰہی ہے۔ اس میں صرف وہ باتیں ہیں جو رب العالمین نے مجھ سے بالمشافہ کہیں۔
بایزید کلام الٰہی کے حقائق ومعارف بیان کرنے میں یدطولیٰ رکھتا تھا اور دلوں پر اس کے تبحر علمی کا سکہ جما ہوا تھا۔ اس کے دعوائے نبوت سے پہلے مرزامحمد حکیم خلف ہمایوں بادشاہ صوبہ دار کابل نے اپنے دربار میں کسی مسئلہ پر علمائے کابل سے اس کا مناظرہ کرایا۔ علمائے کابل مسائل فقہ پر پوری طرح حاوی تھے۔ اس لئے وہ اپنی فقہی روایات لے کر مقابلہ کو آئے۔ مگر بایزید کے مقابلہ میں محض روایات ومنقولات سے کام نہیں چلتا تھا۔ علماء نے شکست کھائی اور صوبہ دار اس کی خوبی تقریر، منقح گوئی، شستہ بیانی اور زور کلام کی بناء پر اس کا معتقد اور گرویدہ ہوگیا۔
بایزید کو مناظرہ ومجادلہ اور منطقی موشگافیوں میں یدطولیٰ حاصل تھا۔ علم جدل نے اس کے دل ودماغ میں غرور وپندار کے کیڑے بھر دئیے تھے۔ اس لئے زمانہ میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ ایسے لوگوں سے توفیق الٰہی مسلوب ہو جاتی ہے اور خدائے غیور وبے نیاز انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ یہ وہ حرماں نصیب ہیں جنہیں شیاطین اپنی کٹھ پتلی بنا کر ہر قسم کا ناچ نچاتے ہیں اور اغوائے خلق کی سرگرمیوں میں جس طرح چاہتے ہیں ان سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ شیاطین کو نورانی شکلوں میں دیکھ کر انہیں خدائے برتریقین کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے ہر حکم کے سامنے بلا تأمل گردن ڈال دیتے ہیں۔
اگر بایزید ان آوازوں کو جن میں اسے منصب نبوت پر فائز ہونے کا مژدہ سنایا جاتا تھا۔ کتاب وسنت اور مسلک سلف صالح کے معیار پر پرکھنے کی زحمت گوارا کرتا یا کم ازکم اس پر کسی متبع سنت پیر طریقت کا ظل عاطفت سایہ افگن ہوتا تو معاً بھانپ جاتا کہ یہ سب اغوائے شیطانی