زمین پر آرہی۔ پیادوں نے ازسرنو زنجیر کو اٹھایا اور سہ بارہ جکڑ کر دمشق لے چلے۔ پیادوں کے مضطرب نہ ہونے اور اس کو پورے اطمینان سے مکرر سہ کرر جکڑ لینے کی وجہ یہ تھی کہ بصری ہر دفعہ پیادوں سے کہہ دیتا تھا کہ یہ خبیث بڑا شعبدہ باز ہے۔ آخر دمشق پہنچ کر اس کو خلیفہ عبدالملک کے سامنے پیش کیا۔ خلیفہ نے پوچھا کیا واقعی تم مدعی نبوت ہو۔ حارث نے کہا: ہاں۔ لیکن میرا یہ دعویٰ کچھ من گھڑت نہیں ہے۔ میں جو کچھ کہتا ہوں وحی الٰہی کے بموجب کہتا ہوں۔
خلیفہ نے ایک قوی ہیکل محافظ کو حکم دیا کہ اس کو نیزہ مار کر ہلاک کر دو۔ نیزہ مارا گیا۔ لیکن کچھ اثر انداز نہ ہوا۔ یہ دیکھ کر حارث کے پیرو کہنے لگے کہ انبیاء اﷲ کے جسم پر ہتھیار اثر نہیں کرتے۔ خلیفہ نے محافظ سے کہا شاید تم نے بسم اﷲ پڑھ کرنیزہ نہیں مارا؟ اب کی مرتبہ اس نے بسم اﷲ پڑھ کر وار کیا تو وہ بری طرح زخم کھا کر گرا اور جان دے دی۔ یہ ۶۹ھ کا واقعہ ہے۔
(دائرۃ المعارف ج۶ ص۶۴۴، الدعاۃ ص۷۳تا۷۶)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے کتاب ’’الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان‘‘ میں لکھا ہے کہ حارث کی ہتھکڑیاں اتارنے والا اس کا کوئی شیطان دوست تھا اور اس نے گھوڑوں کے جو سوار دکھائے تھے وہ ملائکہ نہیں بلکہ جنات تھے۔
قاضی عیاضؒ کا بیان
قاضی عیاضؒ ’’الشفاء فی حقوق دار المصطفیٰ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے حارث کو قتل کرا کے سولی پر لٹکوا دیا۔ خلفاء وسلاطین اسلام نے ہر زمانہ میں مدعیان نبوت کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے اور علمائے معاصرین ان کے اس عمل خیر کی تائید وتحسین کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ یہ جھوٹے مدعیان نبوت مفتری علی اﷲ ہیں۔ خدائے برتر پر بہتان باندھتے ہیں کہ اس نے ان کو منصب نبوت سے نوازا ہے۔ یہ لوگ حضرت خیرالانامﷺ کے خاتم النّبیین اور لا نبی بعدہ ہونے کے منکر ہیں۔ علمائے امت اس مسئلہ پر بھی متفق اللفظ ہیں کہ مدعیان نبوت کے کفر سے اختلاف رکھنے والا بھی دائرہ ملت سے خارج ہے۔ کیونکہ وہ مدعیان نبوت کے کفر اور تکذیب علی اﷲ پر خوش ہے۔ (نسیم الریاض شرح شفا قاضی عیاض ج۴ ص۵۷۵)
محمودی غلط اندیشی
مرزامحمود نے جلسۂ لندن میں جو کابل میں نعمت اﷲ مرزائی مرتد کے رجم کے خلاف مرزامحمود کی کوششوں سے منعقد ہوا، بیان کیا کہ: ’’حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جو لوگ مرتد ہوئے ان کو کسی نے قتل نہ کیا تھا۔ صرف اس وقت تک ان سے جنگ کی گئی جب تک انہوں نے حکومت