خس وکاشاک اور کوڑا کرکٹ بھی سطحِ آب پر تیرتے نظر آتے ہیں ۔ ہر طرف پانی کے اوپر جھاگ اُٹھ آتی ہے ، پانی بالکل گدلا ہوجاتا ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب دریا کے اوپر حکمرانی انھیں خس وخاشاک اور کوڑا کرکٹ کی رہے گی ، اور اب پانی کبھی قابل استعمال نہیں ہوسکے گا ، لیکن جونہی سیلابی دور ختم ہوتا ہے ، اور اس کا جوش وخروش مدھم پڑتا ہے ، جھاگ اُڑ جاتی ہے ، گدلاپن تہ میں بیٹھ جاتا ہے ، کوڑا کرکٹ ایک طرف ہوکر ختم ہوجاتا ہے ، اورصاف ستھرا پانی نکھر کر باقی رہ جاتا ہے ۔
دوسری مثال لو ، دھاتوں کو پگھلا کر زیور ، برتن اور ودسری چیزیں بنائی جاتی ہین ۔ جاننے والے جاتے ہیں کہ جب دھات تپائی اور گلائی جاتی ہے تو اس کی میل کچیل بھی حرارت پاکر بصورت جھاگ ابھر آتی ہے ، مگر آناًفاناً فنا بھی ہوجاتی ہے ، اور صاف ستھری قابل صنعت دھات نکھر کر سامنے آجاتی ہے ، حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم یہ مثال حق اور باطل کو واضح کرنے کے لئے بیان کررہے ہیں ۔
یعنی باطل اپنی کثرتِ تعداد کے لحاظ سے خواہ کتنا ہی وقیع اور موثر معلوم ہو ، آخر اس کا زور ٹوٹ کر رہتا ہے ۔ اہل عقل اسے رد کردیتے ہیں اور حق کا ظہور ہوکر رہتا ہے ۔ دنیا میں کوئی جھوٹ بہت دنوں تک نہیں چل پاتا ۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے خواہ کتنے ہی طمطراق سے اس کا اعلان کیا جائے ، اور خواہ اس کی ظاہری رونق سے کتنی ہی نگاہیں خیرہ ہوجائیں ، لیکن بہت دن نہیں گذرتے کہ اس کی قلعی کھل جاتی ہے ، کتنے مدعیانِ الوہیت ونبوت دنیا میں آئے، دنیا ان سے کس درجہ متاثر ہوئی ، لیکن عرصہ نہیں گزرا کہ ان کے کذب وفریب کا بھانڈا پھوٹ گیا ، اور ذلت ورُسوائی کا طوق ان کے گلے لگا ۔ دنیا کی تاریخ اس کی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ فرعون کا جاہ وجلال دیکھو ، کہ أنا ربکم الاعلیٰ کا نعرہ بلند کرتا تھا مگر مٹ گیا اور ایسا مٹا کہ بجز نفرت