چیزوں کا قرآن میں ہونا ضروری ہے ، اور جب قرآن میں نہیں تو غلط ۔
صحیح وغلط کا اصول بتائے بغیر صحت وغلطی کا فیصلہ کرتے چلے جانا حماقت کا شاہکارہے ۔ ہاں ایک اصول آپ نے ضرور بتایا ہے کہ روایت کتاب اﷲ کے خلاف نہ ہو ۔
محترم! یہ اصول تو بنیادی اور مسلمہ ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کتاب ا ﷲ کے خلاف ہونے کا معیار کیا ہے ؟ فہم اور فہم میں بہت تفاوت ہے ۔ ایک ہم لوگ ہیں ، جنھوں نے برسہابرس اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ہے اور ہمارا سلسلۂ تعلیم بغیر کسی انقطاع کے اساتذہ در اساتذہ ہوتا ہوا جناب نبی کریم ا تک منتہی ہوتا ہے ۔ کڑی سے کڑی مربوط ہے ، ہم نے صرف الفاظ ہی نہیں پڑھے ہیں ،معانی کا ادراک بھی سیکھا ۔ الفاظ ومعانی دونوں سلسلے آنحضرت ا تک سند متصل کے ساتھ پہونچتے ہیں ۔ ہمیں تو آیاتِ قرآنی اور احادیث صحیحہ میں کہیں تعارض اور اختلاف نظر نہیں آتا ، اور جہاں کہیں بظاہر تعارض نظر آتا ہے وہ محض ظاہری اعتبار سے، امعانِ نظر اور دقت فکر کے بعد سرے سے اختلاف وتعارض نہیں معلوم ہوتا ۔
اور ایک آپ ہیں کہ نہ الفاظ ہی کی تعلیم میں اور نہ معانی کی تعلیم آپ کے اوپر تک سلسلہ چڑھتا ۔ محض خودرَو پیداوار ہیں ۔ آپ کو آیات کے خلاف بے شمار احادیث نظر آتی ہیں ، اور اپنی ہی عقل کے بل بوتے پر فیصلہ کئے چلے جارہے ہیں ، اس کا مطلب کیا ہوا ؟ یہی ناکہ اس اصول کو استعمال کرنے کا معیار آپ کی عقل ہے ، یعنی جس حدیث کو آپ کی عقل کتاب اﷲ کے خلاف ٹھہرادے ، امت کے ذمہ ضروری ہے کہ اسے بے چون وچرا تسلیم کرلے ، اسے ہذیان کے علاوہ اور کیا کہا جائے ۔
عبد الخالق صاحب ! ایسا اصول ارشاد فرمائیے ، جس کو آپ کے مرنے کے بعد بھی ستعمال کیا جاسکے ، کل کو آپ مرجائیں تو حدیثیں ہم کس کسوٹی پر لے کر جائیں