آپ لکھتے ہیں کہ :
’’کتاب اﷲ میں صراحۃً نہ سہی کم از کم اشارۃً ہی ایصال ثواب کا ذکر ہونا لازمی وضروری ہے ، کیونکہ یہی وہ واحد کتاب علم ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اس میں حیاتِ آخرت کی فلاح کے متعلق ہر چھوٹی وبڑی چیز تفصیل سے بتادی گئی ہے ؟
آپ چاہتے ہیں کہ قرآن میں ایصال ثواب کا ذکر ضرور ہونا چاہئے ، اور اگر نہیں ہے تو ایصال ثواب ہی باطل ہے ۔ آپ نے اپنے وضع کردہ اس اصول پر قائم رہ کر چندسوالوں کے جواب عنایت فرمائیے ۔
(۱) نماز کے پانچ اوقات تحدید وتعیین کے ساتھ قرآن میں صراحۃً نہ سہی کم از کم اشارۃً ہی دکھلادیجئے ، اور اگر نہ دکھاسکیں تو اپنے اصول کے مطابق غلط ہونے کا فتویٰ صادر کیجئے ۔
(۲) نماز کی رکعتوں کا قرآن میں صراحۃً نہ سہی اشارۃً ہی ذکر بتلادیجئے کہ کہاں ہے ۔
(۳) نماز کی مجموعی ہیئت ، تکبیر تحریمہ ، قیام ، قرأت ، رکوع ، سجدہ ، قعدہ وغیرہ ان سب کی مجموعی شکل ہمیں قرآن میں صراحۃً نہ سہی اشارۃً ہی دکھلادیجئے ۔
(۴) زکوٰۃ کا مصداق ، اس کی مقدار ، نصاب ، حولانِ حول اور دوسری تفصیلات کا ذکر قرآن میں کہاں ہے ؟ صراحۃً نہ سہی اشارۃً ہی قرآن میں دکھلادیجئے ۔
(۵) روزہ کے احکام ومسائل ، قضا وکفارہ کی تفصیلات قرآن میں بتائیے کہ کس جگہ ہے ؟
(۶) حج کی تفصیلات کا سراغ قرآن کریم میں دکھائیے ۔
(۷) یہ تو بنیادی عبادات کی بنیادی چیزیں ہیں ، جن کا براہ راست تعلق حیاتِ آخرت کی فلاح سے ہے ۔ کتاب اﷲ میں صراحۃً نہ سہی اشارۃً ہی ان کا ذکر ہونا لازمی