ہوتا تو اپنے افکار وخیالات اور حاصل مطالعہ کو لے کر آپ قبر میں چلے جاتے ، چاہے مخلوق خدا گمراہی میں بھٹکتی پھرتی ، خالق عالم جب پوچھتا کہ اے عبد الخالق ! میری مخلوق ایصال ثواب کی گمراہی اور دیگر بہت سی گمراہیوں میں مبتلا تھی ، اور ایک ہزار سال سے زیادہ مدت اس گمراہی پر گذر چکی تھی ، تم نے ان کی ہدایت کا سامان کیوں نہیں کیا ۔ جتنی تمہاری طاقت تھی اس قدر تو تم کئے ہوتے، تو آپ جواب دیتے کہ بارِ الٰہا! آپ کی مخلوق میں سے کسی نے میرے ساتھ ’’ سخت نامناسب سلوک ‘‘ کیا ہی نہیں ، ورنہ میں ضرور کتابِ ہدایت لکھ آتا ، کتنا شاندار ہے یہ جواب !
سچ کہئے گا ، بات کی پچ چھوڑئیے ، کہاں دینی تقاضوں کا اظہار اور کہاں کرم فرماؤں کے سخت نامناسب سلوک پر یہ چیخ وپکار ، اور پھر ابھی سے یہ اعلان وتکرار کہ آئندہ جو کچھ بھی حاصل مطالعہ پیش کیا جائے گا اس کے پیچھے بھی یہی جذبۂ بے قرار ہوگا ۔ ماشاء اﷲ
اور جھوٹ کی سنئے !آپ نے دعویٰ کیا کہ میرے اپنے کرم فرماؤں نے میرے ساتھ سخت نامناسب سلوک کیا ، میں عرض کرتا ہوں کہ یہ سفید جھوٹ ہے ، آپ کوئی ثبوت پیش کیجئے کہ کس نے نامناسب سلوک کی ابتداء کی ہے ۔ بات تحریری ہونی چاہئے ، مبارکپور میں آپ کے موافقین ومخالفین میں کیا گفتگو ہوتی تھی ہم دور والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ۔ آپ یہ بتلائیے کہ منظر عام پر کتاب شائع کرکے پہل کس نے کی ، کسی نے قلمی فتویٰ دیا ۔ آپ نے جواب لکھ کر شائع کردیا ، اور جواب بھی کیسا بدزبانی اور یاوہ گوئی سے لبریز ! اور دشنام صرف ایک مفتی کو نہیں پورے زُمرۂ علماء وحلقۂ محدثین کو ، بلکہ ان سے بڑھ کر اجلۂ ائمہ اور صحابۂ کرام کو ۔ سخت جارحانہ سلوک آپ نے کیا ، بالفرض اگر آپ کی شان میں کسی نے گستاخی کی بھی ہو …جسے آپ