کی راہ پاتے ہیں اور کچھ لوگ اسی سے گمراہی کا شکار ہوتے ہیں ،یہ قصہ تو چلتا ہی رہے گا،کسی کے دور و نزدیک ہو نے کے خوف اور اندیشے سے اتنی احتیاط لب و لہجے میں نہیں برتی جا سکتی،جو خوشامد کے دائرے میں آجائے۔
جس کا جی چاہے بدکے اور دور ہو،اور جس کا جی چاہے مانے اور قریب ہو،دین کی جڑ کھودنے والوں کے ساتھ وہ رویہ اختیار کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے جس کی آپ نے تلقین فرمائی ہے۔
ہاں کوئی بات علم و تحقیق کی کسوٹی پر غلط ثابت ہو ،تو ہم بخوشی اس کا اعتراف کریں گے، اور اس سے رجوع کر لیں گے۔لیکن اہل باطل کے ساتھ…خواہ کسی درجے کا بطلان ان میں ہو…وہی لہجہ اختیار کیا جائے گا۔جس کو اب تک المآثر میں برتا گیا ہے۔یہ معروضات آپ کے لئے گرانی ٔخاطر کا باعث تو ہوں گی۔لیکن جو بات تھی وہ عرض کردی گئی۔واﷲ الموفق للحق والصواب ۔
والسلام
اعجاز احمد اعظمی ۹؍ربیع الآخر ۱۴۲۴ ھ
(۱)نرم لب ولہجے کے حق میں بڑی بات یہ کہی جاتی ہے کہ اس طرح کی باتوں اور تحریروں سے وہ طبقہ بدکتا اور بھاگتا ہے ، جس کو اس کا مخاطب بنایا گیا ہے ۔ اگر نرمی اور ملائمت سے بات کہی جائے، تو شاید وہ قریب آئے ، یہ بات بظاہر تو بھلی معلوم ہوتی ہے ، مگر تجربہ یہ ہے کہ یہ طبقہ نہ نرم لہجہ سے متاثر ہوتا ، اور نہ ملائمت سے راضی ہوتا، تو ان کی فکر کرنے کی چنداں حاجت نہیں ہے ۔ ہاں وہ لوگ جو خالی الذہن ہیں ، یا وہ جو طریق حق پر ہیں ، انھیں مطمئن کر نا اور رکھنا ضروری ہے ۔
٭٭٭٭٭