مخدوم مکرم و محترم! زیدت معالیکم
ٍٍ السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ‘
مزاج گرامی!
جناب والا کا گرامی نامہ ملا۔اسی طرح کے مضمون کا ایک گرامی نامہ غالباً سال ڈیڑھ سال پہلے بھی ملا تھا، اس کا جواب اس خاکسار نے دیا تھا،مگر شاید وہ ملا نہیں ، ورنہ اس مضمون کے اعادہ کی ضرورت نہ پیش آتی،
جو لوگ اسلامی تعلیمات و احکام کے خلاف ہرزہ سرائیاں کرتے ہیں یا ان میں بے جا تاویلات کا دروازہ کھولتے ہیں ،ان کے جواب میں لب و لہجہ کی تیزی غیرت دینی کا تقاضہ ہے،انصاف پسند لوگوں سے اس انداز میں گفتگو کی جاسکتی ہے جس کی آپ تلقین کرتے ہیں ،مگر جو لوگ ہمارے سامنے ہیں وہ انصاف سے خالی اور ظلم سے معمور ہیں ۔ان کے لئے وہی لب و لہجہ مناسب ہی نہیں ضروری ہے،جو المآثر میں اختیار کیا جاتا ہے۔یَاأَیُّھَا النَّبِیِّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ(اے نبی کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے) اور وَلَا تُجَادِلُوْا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ أَحْسَنُ إِلَّاالَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ (اور تم اہل کتاب کے ساتھ مہذب طریقہ کے علاوہ مباحثہ مت کرو ، مگر وہ جو ظالم ہوں )کی دلالت یہی ہے ،اب رہی یہ بات کہ کون اس سے بدکتا ہے اور بھڑک کر بھاگتا ہے،تو وہ کوئی قابل اعتنا چیز نہیں (۱)،آخر آج دنیا کا ایک بڑا طبقہ جہاد اور جہادی تحریکات سے بدکتا ہے،بلکہ ایک طبقہ تو یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جہاد کی آیات قرآن سے خارج کر دی جائیں ، تو کیا ان کے بدکنے کے خوف سے ایسا کیا جا سکتا ہے؟
محترم!خود قرآن کریم کو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کچھ لوگ اس سے ہدایت