عزیزم! رزقکم اﷲ علماً نافعاً وعملاً متقبلاً
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
ابھی تمہارا خط ملا ، انتظار تھا ، پڑھ کر قلبی مسرت حاصل ہوئی ۔ مجھے تم سے اسی تعلق وارتباط اور محبت وانس کی توقع تھی ، بے حد خوشی ہوئی ۔ ؎
اے وقتِ تو خوش کہ وقتِ ما خوش کردی
میں ادھر تقریباً بیس بائیس روز سے گھر تھا ، میری خالہ جان جو میری والدہ کے بعد میری ماں تھیں ، بہت زیادہ علیل تھیں ، طویل علالت کے بعد ۸؍ جمادی الاول کو انتقال کرگئیں ۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون ، ابھی پرسوں مدرسہ پہونچا ہوں ، حق تعالیٰ سے دعاء مغفرت کرو ۔
تم نے جس احسان مندی کا ذکر کیا ہے، اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں ، بجزاس کے کہ یہ سعادت مندی ہے ، بلاشبہ جو لوگ علم کی روشنی بخشتے ہیں ، جن کے ہاتھ دل کی آنکھیں کھولتے ہیں ، ان کے احسانات کو یادرکھنا ، ان کی قدردانی کرنا شرعی اور اخلاقی فریضہ ہے ، اس قدردانی میں جتنی بلند حوصلگی ہوگی اسی کے بقدر انسان کے مراتب میں اضافہ ہوگا ۔ میں تو پہلے بھی کہتا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ اصل معطی اورواہب حق تعالیٰ شانہٗ ہیں ، ان کی بخشش وعطا ء ہے ، جتنا جس کو مناسب ہوتا ہے ، عطا فرماتے ہیں ، ہم لوگ کھیت میں پانی پہونچانے والی نالیوں کے مثل ہیں ، تالاب یا کنویں سے پانی نکل کر آتا ہے اور کھیت میں جمع ہوکر سیراب کرتا ہے ، نالیاں پہلے بھی خالی تھیں اور کھیت میں پانی پہونچ جانے کے بعد پھر خالی ہوجاتی ہیں ، اپنی استعداد کے مطابق ہر شخص فیاضِ ازل سے فیضان حاصل کرتا ہے ، تمہیں لوگوں کے نصیبے کا ہم لوگوں کو بھی حاصل ہوجاتا ہے ، ہم کیا اپنا احسان سمجھیں ، تمہیں لوگوں کا احسان ہے کہ