اسلامی تہذیب کے پاؤں میں انگریزی تہذیب کا پتلون پہنانے کی کوششیں میں نے وہاں دیکھی ہیں ، وہی رنگ ظاہر وہی رنگ باطن ، دونوں شیر وشکر تو ہو نہیں سکتے ، دونوں اپنا اپنا امتیاز سنبھالے ، اپنا اپنا تشخص باقی رکھنے کے لئے کوشاں ہیں ، عجیب ملغوبہ تیار کیا گیا ہے ،ا س کی تفصیل میں جاؤں تو بات پھیل جائے گی ۔
میں ایک ٹھیٹھ ملا ہوں ، ظاہر بھی میرا ملا ہے ، باطن بھی میرا ملا ہے ، ایک رنگ رکھتا ہوں ، دوسرا رنگ میں نے قبول کرنا سیکھا ہی نہیں ، اس لئے اجنبی اجنبی سا لگتا ہوں ، کیونکہ عام طور پر دورنگ کا ماحول بن گیا ہے ، مگر مجھے یہ مخلصاً لہ دینی (۱) کے خلاف معلوم ہوتا ہے ، اس لئے دو رنگ کا آمیزہ دیکھ کر مجھے وحشت سی ہوتی ہے ، تمہارے یہاں میں کچھ نہ کہہ سکا ، کیونکہ دوروز کا مہمان تھا ، ہاں رات کے جلسے میں اشارات کئے تھے ، خیر میں یہ سب کیا کہنے لگا ، مجھے تو تم لوگوں کی محبت وخدمت کا شکریہ ادا کرنا تھا ،مولوی افتخار سالک سے نئی ملاقات تھی ، نئی محبت تھی ، مگر منماڑ کی سات گھنٹے کی متواتر رفاقت نے اس میں پختگی پیدا کردی ، اب میرے نزدیک نعیم الظفر اور افتخار سالک یہ دونوں شعر محبت کے دو مصرعے ہیں ، دونوں میں کس کے حسن وخوبی کی داد دوں ، سبحان اﷲ وما شاء اﷲ ، دونوں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ، ا ﷲ تعالیٰ تم دونوں کو خوش رکھیں ، اور اپنا اور اپنے دین کا مخلص بناکر رکھیں ۔ ( علیٰ رغم أنفسکم ) کچھ سمجھے ؟ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
(۱) قل إنی أمرت أن أعبد اﷲ مخلصاً لہ دینی۔
(آپ کہہ دیجئے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اﷲ کی عبادت کروں اسی کیلئے اپنے دین کو خالص کرکے )
٭٭٭٭٭