پر مسلم ہیں اور دونوں کا دائرۂ کار الگ الگ ہے ۔انھیں الگ الگ دائروں میں دیکھو تو کوئی الجھن نہیں ہے ، لیکن دونوں کو خلط ملط کردوگے تو الجھن پیدا ہوگی ، اور اگر دونوں کو ایک دائرہ میں دیکھنا ہی چاہوتو تعبیر یوں کرو کہ بندہ بااختیار ہے لیکن یہ اختیار چونکہ خدا کا عطا فرمودہ ہے اس لئے حصول اختیار میں تو وہ بااختیار نہیں ہے ، باقی اعمال وارادت اسی اختیار کا نتیجہ ہیں ، اور اختیاری اعمال پر مواخذہ ہونا بالکل برحق ہے ، پس انسان من وجہٍ مختار ہے اور من وجہٍ مختار نہیں ہے ، جس جگہ اختیار ہے وہیں مواخذہ ہے اور جس جگہ اختیار نہیں ہے وہاں مواخذہ بھی نہیں ہے ۔ البتہ جبر کا لفظ نہ بولو ، اس کے بجائے ’’ جبل ‘‘ کا لفظ پسندیدہ ہے ، اسی سے ’’ جبلت ‘‘ ماخوذ ہے ۔ حاصل یہ کہ انسان اپنے اختیار پر ’’ مجبول ‘‘ ہے ، اور دیگر اعمال میں صاحب ا ختیارہے ۔ انسان کو مجبورِمحض کہنا بداہت کے خلاف ہے ، اور مختارِ مطلق ماننا سراسر حماقت ہے ، مسلک حق دونوں کے درمیان ہے ، اور مواخذہ بھی علی الاطلاق نہیں ہے ، امید ہے کہ اس اجمالی توضیح سے تسلی ہوجائے گی ۔
تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ لاوارث عورت کی شناخت کی اگر کوئی صورت نہ ہوگی تو جہاں وہ پائی گئی ہے وہاں کے باشندوں کے تابع ہوگی ، کفار کی آبادی ہوتو کافرہ ، مسلمانوں کی آبادی ہوتو مسلمان ، اور اگر ایسی صورت نہ ہوتو پھر وہیں کسی مفتی سے تحقیق کرلو ۔ فقہی سوالات کا جواب دینا مفتیوں کا منصب ہے ، میری نظر فتاویٰ کی کتابوں پر زیادہ نہیں ہے اور تحقیق کی فرصت نہیں ہے ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۱۹؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۹ھ
٭٭٭٭٭