عزیزم! السلام علیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
تمہارا خط ملا ، حسب معمول جواب فوراً لکھا جاتا مگر حجر اسود کے متعلق جو سوال تم نے کیا ہے ، وہ مشہور تو بہت ہے مگر مجھے اس کی تحقیق نہیں ہے ، اتنا تو روایات سے ثابت ہے کہ وہ جنت سے آیا ہے ، چنانچہ ابھی چند روز ہوئے نسائی شریف میں یہ روایت نظر سے گذری ہے ، لیکن یہ کہ وہ سفیدبھی تھا اس سلسلے میں کوئی روایت یاد نہیں ہے ، سوچاتھا کہ کتابیں دیکھ کر لکھ دوں گا ، اس وجہ سے تاخیر ہوگئی ، اب فرصت ملی ہے تو مولوی مقبول صاحب ہتورا چلے گئے ہیں ، وہاں تبلیغی جلسہ ہے ، اس وقت مجبوری ہے اس لئے اس کے متعلق روایات کی تحقیق یا تو خود کرلو …تاریخ مکہ سے متعلق جو کتابیں ہیں ان میں یہ بات مل جائے گی … یا پھر بعد میں میں ہی لکھ دوں گا ۔
پہلا سوال تم نے جبر واختیار کے متعلق کیا ہے ، یہ سوال ابتدائی حالت میں تو سادہ ہے ، مگر اس کی تدقیق اسے پیچیدہ بنادیتی ہے ، اس لئے اسے اس کی ابتدائی حالت ہی میں رہنے دو ۔ دوباتیں ساری عالم میں مسلّم ہیں ، انھیں ہر شخص خواہ عاقل ہو خواہ نادان ، سب تسلیم کرتے ہیں ، اول یہ کہ حق تعالیٰ ساری کائنات کے مالک ہیں ، عالم کے ذرہ ذرہ میں ہر وقت ان کا تصرف ہے ، اس میں کسی دو شخص کو اختلاف نہ ہوگا بشرطیکہ منکر خدا نہ ہو ……اورایسے کتنے آدمی دنیا میں ملیں گے …… دوسری بات یہ ہے کہ انسان ہی کیا ہر جانور اپنے ارادہ وعمل اور حرکت وسکون میں خود کو ہمہ وقت بااختیار تصور کرتا ہے ، کوئی شخص ایسا نہیں ملے گا جو عامۃً اپنے ارادوں میں خود کو ایسا مجبور خیال کرتا ہو جیسے رعشہ والا اپنے رعشہ پر مجبور ہوتا ہے ، حتیٰ کہ اکراہ کی حالت میں بھی جو عمل صادر ہوتا ہے وہ بھی اختیار ہی سے ہوتا ہے ، یہ اختیار بالکل بدیہی ہے، اور سارے عالم کے لئے بدیہی ہے ، اور بدیہیات کا انکار ابلہی ہے ۔ یہ دونوں اپنی جگہ