حال کی محدود اور مختصر سی معلومات رکھتی ہے ، بھلا وہ لا محدود علوم الٰہیہ میں پھیلے ہوئے وقائع کا احاطہ کیونکر کرسکتی ہے بس یہ ایمان کی برکت ہوتی ہے کہ ہر چیز کماھی علیہ کی علت سامنے آجائے ، اگر اسی نقطۂ نظر سے علوم کی تحصیل کرو تو عجائب علوم منکشف ہوں ، اور ترتیب بھی یہی ہے کہ پہلے ایمان ہو ۔ حق تعالیٰ کا ذکر ہو ۔ اس کے بعد تفکر ہو تو اہل عقل کہلائے اوراگر ترتیب اُلٹ دیں تو اول درجہ کی بے عقلی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَآیَاتٍ لِاُوْلِی الْاَلْبَابِ ، اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اﷲَ قِیٰماً وَقُعُوْداً وَعَلیٰ جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ(بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے اور رات ودن کے آنے جانے میں نشانیاں ہیں عقلمندوں کیلئے ، جولوگ اﷲ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے ، اور آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں غور وفکر کرتے ہیں ) یہ ترتیب فطری ہے ، اس کے برخلاف جب تفکر پہلے آتا ہے تو آدمی خطرے میں پڑجاتا ہے ۔پس اپنے ایمان کو سنبھال کر رکھو ، اس کو ہر وقت تازہ غذا پہونچاتے رہو ، عمل ایمان کا غلام ہے اور راحت ومسرت اس کا فطری نتیجہ ہے ، وہ حاصل ہے تو سب حاصل ہے ورنہ فریب ہی فریب رہتا ہے ، بات سمجھے ؟
اﷲ تعالیٰ تم کو ،مجھ کواور میرے تمام دوستوں کو اپنی سچی محبت اور صحیح تفکر نصیب کرے ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی ،
۵؍ ربیع الاول ۱۴۱۱ھ
٭٭٭٭٭