عزیزم ! حفظک اﷲ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
الحمد ﷲ حرمین شریفین سے بعافیت تمام ۱۸؍ محرم کو واپسی ہوئی ، اس سفر کی برکات کا کیا پوچھنا ، سچ پوچھو تو یارائے تحریر نہیں ، البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جس زمین پر سر کے بل چل کر پہونچنا چاہئے ، وہاں ایک خطاکار وگناہگار بندہ اپنے ناپاک قدموں سے چل کر بخیریت واپس آگیا ، تو یہ اس رب کریم کی غایت درجہ نوازش اور اس ناچیز بندہ کی اعلیٰ درجہ کی کرامت ہے ۔ کہاں وہ پاک ومقدس سرزمین جہاں جبرئیل امین بھی ادب سے سر جھکائے ہوئے آتے ہوں ، اور کہاں یہ حقیر مشتِ خاک جسے اٹھنے بیٹھنے تک کا سلیقہ نہ ہو ، مگر یہ واقعہ ہوا، زمانہ کا حیرتناک واقعہ! کہ ایک نالائق بندہ اپنے اسی ناپاک وجود کے ساتھ گیا اور پھر بغیر کسی سزا میں مبتلا ہوئے بخیریت واپس آگیا ۔ یہ محض رب رحمان کی شانِ رحمت کا کرشمہ ہے ، ایسی رحمت! جسے دیکھ کر گنہگاروں کو بھی حوصلہ ہوجاتا ہے کہ ان شاء اﷲ جس طرح آج سربازار رُسوائی سے محفوظ رکھا گیا ہے ، کل بروز قیامت بھی ان شاء اﷲ نوبت رسوائی کی نہیں آئے گی ۔ الحمد اﷲ یہ سفر گزشتہ سفر سے زیادہ بابرکت ثابت ہوا، تحریر کی گنجائش کہاں ؟ آؤگے تو زبانی سن لوگے ، یا طبیعت متوجہ ہوئی تو اس کی روداد بھی قلمبند ہوکر سامنے آجائے گی ، ابھی تو زبانی بیان کرکے اور خود یاد کرکے حلاوت حاصل کرتا ہوں ، اﷲ تعالیٰ اپنا فضل فرمائیں ۔
تم نے دیارِ حرم کی حاضری کی جو تدبیر سوچی ہے ، گوکہ میں نے پہلے ہلکا سا مشورہ بھی دیا تھا ، تاہم میرا دل اس سے متفق نہیں ہے ، مکہ شریف یا مدینہ شریف کی بات ہوتو خیر گنجائش ہے ، مگر ریاض سے تو اعراض ہی مناسب ہے ، وہاں جاکر بندگانِ خدا طعمۂ دنیا بن کر رہ جاتے ہیں ۔