عزیزم مولوی عطاء اﷲ سلّمہ !
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
تمہارا خط ملا ، تم نے عملیات کے بارے میں دریافت کیا ، کہ انھیں تم عمل میں لانا چاہتے ہو تو سنو ! کہ یہ بات ایک ایسے شخص کے لئے جو عالم دین ہو ، خدا ورسول پر ایمان رکھتا ہو ، اﷲ پر بھروسہ رکھتا ہو ، ہرگز زیبا نہیں ہے ، عملیات ایک فتنہ ہے ، اس میں پڑکر آدمی بسا اوقات اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ، کتابوں میں جو کچھ اس پر سبز باغ نظر آتے ہیں ، جب کرنے لگوگے تو معلوم ہوگا کہ محض سَراب ہیں ، اور ان تک پہونچنے کے لئے نہ جانے اپنا کتنا قیمتی سرمایہ برباد کرنا ہوگا ، ہرگز اس کے درپے نہ ہو ، عملیات نہ کرو ، اعمال حسنہ پر کاربند رہو ۔
عملیات کا حاصل یہ ہے کہ آدمی خدا کی کائنات کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنی مرضی کے تابع بنانا چاہتا ہے ، یہ خدا کی جناب میں گستاخی ہے ، انسان کا بڑا کمال یہ ہے کہ وہ خود خدا کی مرضی کا تابع بن جائے ، پھر اگر ان کو منظور ہوگا تو دنیا کی بہت سی چیزوں کو اس کے تابع بنائیں گے ۔
عملیات کا عامل نہ کوئی نبی اور رسول ہوا ، اور نہ سلف صالحین ! یہودیوں نے حضرت سلیمان ں پر الزام رکھا تھاکہ وہ عامل تھے ، ساحر تھے ، تو اﷲ تعالیٰ نے اس کی تردید کی ، اور فرمایا وماکفر سلیمٰن ،( سلیمان نے کفر نہیں کیا )۔
ہاروت وماروت کے بارے میں راجح قول یہی ہے کہ وہ فرشتے تھے ، ان پر بھی سحر کا علم اتارا گیا تھا ، مگر وہ سحر سفلی نہ تھا ۔ آج کل کی اصطلاح کے مطابق ’’ رحمانی عمل ‘‘ تھا ، مگر تاثیر کے اعتبار سے وہ بھی عجائبات کا مظہر تھا ، اسی لئے اسے بھی سحر کہہ دیا جاتا ہے ، یہ علم در حقیقت سفلی سحر کو ختم کرنے اور اس کے علاج کے لئے نازل کیا گیا تھا ، تاہم