مِّنَ الدُّنْیَا إلٰی رَحْمَتِکَ، یَا مَنْ یَکْفِيْ عَنْ کُلِّ أَحَدٍ وَلَا یَکْفِيْ مِنْہُ أَحَدٌ، یَا أَحَدَ مَنْ لَّا أَحَدَ لَہٗ یَا سَنَدَ مَنْ لَّا سَنَدَ لَہٗ اِنْقَطَعَ الرَّجَائُ إلَّا مِنْکَ نَجِّنِيْ مِمَّا أَنَا فِیْہِ وَأَعِنِّيْ عَلٰی مَا أَنَا عَلَیْہِ مِمَّا نَزَلَ بِْي بِجَاہِ وَجْہِکَ الْکَرِیْمِ وَبِحَقِّ مُحَمَّدٍ عَلَیْکَ اٰمِیْنَ۔
اس تدبیر سے ان شاء اﷲ بہت کچھ حاصل ہوگا۔
اعجاز احمد اعظمی
۲۳؍ ربیع الآخر ۱۴۲۴ھ
٭٭٭٭٭
۱۹۹۶ء میں سفر پاکستان کے موقع پر ویزے کے حصول کے لئے کئی ہفتے تک دہلی میں قیام رہا ، اسی موقع پر یہ خط لکھاگیا۔
عزیزم مولانا منظور احمد سلّمہ
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
ہم لوگ دہلی الحمد ﷲ خیریت سے پہونچ گئے ، راستہ میں چند گھنٹے کے لئے امروہہ اتر گئے ، وہاں محمود الحق، انوار الحق اور ایوب سے ملاقات ہوئی۔ امروہہ سے جو مجھے تعلق ہے اس کی وجہ سے گوارا نہ ہوا کہ ٹرین وہاں رکے، اور میں وہاں سے اترے بغیر آگے بڑھ جاؤں ۔ وہاں پہونچ کر دل کو بہت فرحت حاصل ہوتی ہے ، میں نے عبدالقادر اور حاجی بابو سے کہا کہ میری اس وقت وہ حالت ہے ، جو امرؤ القیس نے اپنے اس مصرعہ میں ظاہر کی ہے ؎
قفا نبک من ذکریٰ حبیب ومنزل
صبح نوبجے وہاں اترے تھے ،اور شام کو بعد نماز عصر وہاں سے دہلی کے لئے