اس کا ثبوت بھی ضروری ہے ، کم از کم خبر واحد کے درجے کا ثبوت صحابیت کیلئے درکار ہے ، اور بابارتن ہندی کے لئے ، اس طرح کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، صرف امکان ، حسن ظن اور ان کا دعوائے صحابیت ہے ، اس سے اتنا تو ہوسکتا ہے کہ ایک معمولی گمان کے درجے میں انھیں صحابی تصور کیا جائے ، لیکن صحابیت کے احکام ان پر جاری نہ ہوں گے۔ اگر ان شرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے ، تو دین میں بڑا رخنہ پیدا ہوجائے گا ۔ کوئی عمر دراز شخص اگر اس کا دعویٰ کربیٹھے تو کیا ہم سب کو صحابی مان لیں گے ۔ ہندوستان میں ایسے عمردراز شخص بہت ہوئے ہیں ، جو حبس دم کرکے ایک دوسال نہیں سینکڑوں سال بیٹھے رہے ہیں ، اس لئے بابارتن کے باب میں حضراتِ محدثین ہی کا قول معتبر ہے ، یہی اصول اجنہ صحابہ کے متعلق بھی ہے ، یہ تو بہرحال معلوم ہے کہ اجنہ میں بھی صحابہ ہوئے ہیں ، لیکن متعین طور پر کسی فرد کی صحابیت معلوم نہیں ۔ اس لئے اگر کوئی جن دعویٔ صحابیت کرلے تو اس کی صالحیت وغیرہ کی بنا پر حسن ظن قائم کرنے کی گنجائش ہے ، مگر قطعیت کے ساتھ فیصلہ درست نہیں ، مشہور قصہ میں بھی اصل حکم یہی ہے ، ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ حقیقۃً صحابی تھے ، اسی بناپر شاہ اہل اﷲ صاحب جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا وہ کسی درجہ میں تابعی نہیں ہوئے ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۲؍رجب ۱۴۰۶ھ
٭٭٭٭٭