عزیزم! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
عرصہ کے بعد تمہارا خط ملا ، جبکہ مجھے انتظار تھا ۔ جس حدیث کا تم نے ذکر کیا ہے ، وہ مسلم شریف کی روایت ہے ، مسلم شریف یہاں نہیں ہے ، مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں اسی کے حوالے سے نقل کیا ہے، صاحب فتح الباری نے بھی نقل کیا ہے مگر حوالہ نہیں دیا ہے ، اس سلسلے میں جو قول تم نے نقل کیا ہے کہ ممکن ہے کہ اجنہ صحابہ اس وقت فضاء آسمانی میں ہوں ، وہ واقعی کمزور بات ہے ، کلام خواہ الفاظ کے اعتبار سے بالکل مطلق ہو ، لیکن متکلم ومخاطب اور ماحول وزمان کے لحاظ سے اس میں قیدیں ملحوظ ہوتی ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے بلقیس کے متعلق ہدہد کی زبان سے نقل کیا ہے کہ واوتیت من کل شیٔ، ظاہر ہے کہ من کل شیٔ سے مراد دنیا کی ہر چیز نہیں ہے ، بلکہ بادشاہت کے جو لوازم واسباب ہیں وہ مراد ہیں ،ا سی طر ح حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ لایبقیٰ علی وجہ الارض بعد مائۃ سنۃٍ ممن ھو علیھا الیوم أحد ، اس سے مراد پوری کائناتِ مکلفین تو کیا ، تمام انسان بھی مراد نہیں ہیں ، حضرت عبد اﷲ بن عمر ص نے فرمایا کہ أراد بذٰلک إنخرام قرنہ ،رسول اﷲ ا کا منشا یہ ہے آپ کا قرن ختم ہوجائے ، جس کے بارے میں آپ نے خیر القرون قرنی فرمایا ہے ۔ اس سے تو معلوم ہوا کہ سوسال تک صحابہ کی موت بھی ضروری نہیں ، مجموعی اعتبار سے آپ کا قرن مراد ہے سوسال گذرنے کے بعد اگر بعض صحابہ زندہ وحیات ہوں تو بھی کچھ مضائقہ نہیں ۔
ہاں جہاں تک ہندوستان کے مدعی صحابیت کا مسئلہ ہے ، تو اس میں محدثین کا طریقہ قوی ہے ، صحابیت ایک شرف عظیم ہے ، اس پر بہت سے احکام وامور متفرع ہوتے ہیں ، اس کے ثبوت کے لئے صرف امکان کافی نہیں ہے ، بلکہ صحیح سند کے ساتھ