سارے امراض وہیں سے اُبلتے ہیں ، سب کا منبع وہی ہے ، اب دنیا والے جسم وصورت کی آراستگی وزیبائش میں اس طرح منہمک ہیں کہ سلطان قلب کی جانب کسی کو توجہ وخیال ہی نہیں ، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ نجاستوں اور پلیدگیوں سے بھر گیا ، پھر برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی باہر نکلتا ہے ، ظاہر ہے کہ دنیا کا اس کے بعد بے اطمینانی ، بد گمانی ، اضطراب ، بے اعتمادی سے بھرنا ضروری تھا ، چنانچہ یہی ہوا ، یہ سب اسی لئے ہوا کہ دل نہیں سنورا ، اب کوئی چاہے کہ یہ خصائل بد چھوڑے تو نہیں چھوڑ سکتا ، کیونکہ جڑ خراب ہوچکی ہے ، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھوں نے اس نکتہ کو سمجھا اور اس کی اصلاح کرلی ، یہ تو تمہارے سوال کامجمل جواب ہے ۔
اب یہ بتاتا ہوں کہ ساری دنیا کا چکر چھوڑ دو ، دوست واحباب سے منہ موڑلو، اپنے اس لطیفۂ قلب کو جو درحقیقت لطیفۂ غیبی ہے ، اس کو درست کرنے کی جانب توجہ دو، اگر تمہارا قلب احکام ِ الٰہی میں رنگ گیا تو بس سب ٹھیک ہے ، اوراس کی درستگی موقوف ہے کسی ایسے شخص پر جو اپنا قلب درست کرچکا ہو ۔
دارالعلوم دیوبند میں حضرت مفتی صاحب( مفتی محمود حسن گنگوہی علیہ الرحمہ ، المتوفی ستمبر ۱۹۹۶ء ) کی ہستی اس کے لئے بہت مناسب ہے ، اگر ان کے پاس آمدورفت رکھو تو بہت بہتر ہے ، لیکن اس میں یہ نیت نہ ہونے پائے کہ حضرت مفتی صاحب کا مقرب بن جاؤں گا ، اور اپنے اقران وامثال میں امتیاز کاموقع ملے گا ، اس نیت سے تباہی آئے گی ۔ مقصد یہ ہوکہ حضرت کی صحبت نیک کی برکت سے نیک وبد کی تمیز آئے گی ، نفحاتِ الٰہیہ جو بزرگان دین کے قلوبِ صافیہ پر دم بدم متوجہ ہوتے رہتے ہیں ، ان کی کچھ لپٹیں ہم ناکاروں پر بھی منعطف ہوجائیں ، اس طرح قلوب کی اصلاح ودرستگی کام موقع بہم پہونچ جائے ۔