تمہارا خط ملا ، حالات کی اطلاع تو مجھے پہلے ہی ہوچکی تھی ، خدا کی طرف سے جو کچھ ہوتا ہے بہتر ہی ہوتا ہے ، ہم بندے ہیں کیا کرسکتے ہیں ، زیادہ سے زیادہ کوئی تدبیرکریں گے ، لیکن ضروری نہیں کہ وہ کامیاب ہو ، باقی یہ حالات جو رونما ہورہے ہیں کم از کم میرے لئے غیر متوقع نہیں ہیں ، طلباء تو میرے جگر گوشے ہیں ، اسی لئے کوئی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو دل دکھتا ہے ، یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ نہ ہوا ہوتا ، کیونکہ یہ خدا کی مشیئت پر اعتراض ہوگا ، مگر یہ ضرور سوچتا ہوں کہ اس طرح باقی طلباء کا کیا حشر ہوگا ؟ ان میں بددلی اور اساتذہ میں برہمی پیدا ہونا لازمی ہے ، پھر افادہ واستفادہ کا سلسلہ موقوف ، یہ ہے خرابی کی بات ، میں سوچتا ہوں کہ اس فرار ونفور کے اسباب کا پتہ لگانا چاہئے ، مگر سچی بات کہو، کون ایسا کرے گا ، بس بھائی مجھے توسو کی سیدھی ایک ہی آتی ہے کہ طلباء شوق ومحنت سے پڑھنا نہیں چاہتے ، یا اساتذہ اخلاص ومحنت سے پڑھانا نہیں چاہتے ، ان دونوں میں ایک بات ضرور ہے ، یہ میں بطور منع خلو کے کہہ رہا ہوں ، ممکن ہے دونوں خرابیاں اکٹھا ہوں ، بہر کیف ہمارے مدارس کایہ ایک عظیم المیہ ہے ، جس سے میں بیحد متاثرہوتا ہوں ، جو بھی ہو تم محنت ودلجمعی کے ساتھ پڑھتے رہو ، ان سب امور میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے ، اس میں خوامخواہ اضاعت وقت ہے ، مقصود سامنے رکھو ، اب میں مناسب یہ سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی باتیں مجھ تک نہ آئیں تو اچھا ہے ، تھوڑی دیر کے لئے تشویش ہوہی جاتی ہے ، بس اپنے حالات کی اطلاع دیتے رہو ، اس کا منتظر رہتا ہوں ۔ والسلام
اعجازاحمد اعظمی
۱۳؍ صفر ۱۳۹۴ھ
٭٭٭٭٭