ہوسکی ، اب میں اس کا انتظام کررہا ہوں ،کہ بنارس آنے کے بعد تم لوگوں کے ساتھ ایک مستقل نشست ہو ، بہر کیف جو کچھ مجھے کہنا تھا ، اب لکھ رہا ہوں ، گوشِ قبول سے سنو! امید کہ فائدہ ہوگا ۔
نیت کہتے ہیں دل کے قصد وارادہ کو ، نیت اپنے وجود کے اعتبار سے فعل پر مقدم ہوتی ہے ، مگر منوی کا حصول آخر میں ہوتا ہے ، یہی وہ چیز ہے جس کو تم نے قطبی میں علت غائی پڑھاہوگا ۔ اس کا قصد تو کام کرنے سے پہلے ہوتا ہے ، مگر حاصل بعد میں ہوتی ہے ، یہ تھی نیت کی مختصر تشریح !
اب مسلمان کی نیت کا حال سنو ! اس کی نیت دوقسم کی ہوتی ہے ۔ عمومی اور خصوصی ۔ نیت عمومی سے مراد یہ ہے کہ مومن اپنے عمل میں خواہ کتنا ہی معمولی ہو رضائِ خدا وندی کا قصد رکھتا ہے ، اس طرح اس کا ہر کام تقرب خدا وندی کا زینہ بن جاتا ہے ۔ اس کو ایک واقعہ سے سمجھو !
ایک بزرگ دریا کے کنارے مقیم تھے ، ان کے دس بارہ بچے تھے ، ایک دن ان کی بیوی نے کھانا پکایا ، انھوں نے بیوی سے فرمایا کہ دریا کے اس پار جاکر فلاں بزرگ کو یہ کھانا دے آؤ ، بیوی نے عرض کیا اور جو دریا میں کشتی نہ ملی تو ؟ فرمایا کہ دریا سے کہہ دینا فلاں بزرگ کے واسطے سے ( اپنا نام لیا ) جنھوں نے کبھی اپنی بیوی سے جماع نہیں کیا ہے مجھے راستہ دیدو ! بیوی نے کہا یہ کیا بات ہوئی ، فرمایا جاؤ اپنا کام کرو ، تم کو اس سے کیا مطلب ؟ وہ بے چاری گئی اس نے یہی بات دہرائی معاً دریا میں راستہ نمودار ہوا ور وہ دریا پار ہوکر ان بزرگ کے پاس پہونچی ، کھلایا پلایا ، اب پھر وہی مصیبت پار کیسے ہو ۔ بزرگ نے فرمایا دریا سے میرا نام لے کر کہہ دینا ان کی برکت سے جنھوں نے مدت العمر کھانا نہیں کھایا ، مجھے راستہ دیدو ۔ عورت نے یہی کہا پھر