عزیز من ! تحصیل علم کے لئے بنیادی اصول مطالعہ اور ذوقِ مطالعہ ہے، میں نے پہلے بھی مطالعہ پرزور دیا ہے اب بھی دیتا ہوں ، کتاب کا مطالعہ اس طرح کرو کہ عبارت حل ہوجائے ، پہلے الفاظ اور ان کے معانی پر عبور حاصل کرو ، صیغے اور ترکیب یعنی فاعل ، مفعول مع اقسامہ ،حال ، تمیز وغیرہ متعین کرو ، اس کے بعد اس کے مطلب پر غور کرو ، ہر روزایک ہی سطر حل کرو لیکن ضرور حل کرو ، ہمت ہار کرہرگز نہ بیٹھو ، کسی فن کی کتاب ہو اتنا ضرو ر کرو ، کیونکہ اس کے بغیر پڑھائی لکھائی کانام تو ہوگا کام نہ ہوگا ، اوراس پر قابو ہوگیا تو پھر کوئی کتاب ہو ، مطلب از خود حل ہوگا ، جن لوگوں نے اس کو سمجھا اوراسی اصول کے مطابق پڑھا ، انھیں کہیں دقت نہیں ہوتی ، درس کا مطلب معلومات فراہم کرنا نہیں ہوتا ،استعداد پیدا کرنی چاہئے ، استعداد در حقیقت ہر شخص میں ہوتی ہے، کہنا یہ چاہئے کہ وہ حجاب میں ہوتی ہے طالب علم استاذ کی معاونت سے اس حجاب کو چاک کردیتا ہے تو استعداد کا نور پھیل جاتا ہے اوراس کی روشنی میں اشیاء نظر آنے لگتی ہیں ، بس تو اسی حجاب کو چاک کرنا ہے اور تمہاری یہ درمیانی مدت ہے ، ابھی حجاب کچھ زیادہ سخت نہیں ہوا ہے آسانی سے چاک کیا جاسکتا ہے ،ا س کے بعدسخت ہوجائے گا اور دشواری ہو گی ۔ یہ تو درسیات کا معاملہ تھا ۔
لیکن اس سے ذرا بھی کم غیر درسیات کا بھی معاملہ نہیں ہے ، بلکہ میرے نزدیک تو اس کی اہمیت کچھ زیادہ ہی ہے ، ان سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے ، ذہن میں وسعت پیدا ہوتی ہے ، علم سے مناسبت بڑھتی ہے ، ذوق وشوق میں ترقی ہوتی ہے، قوت بیان پیدا ہوتی ہے ، معلوماتی کتابیں پڑھنی چاہئے ، خصوصاً تاریخ اسلام پر اچھی دسترس حاصل ہونی چاہئے ، صرف تاریخ کا جاننے والا علوم وفنون کی بہت سی اقسام کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے ، اسی لئے میں نے ’’تاریخ ملت‘‘(۱) کے گیارہوں